1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی جس میں اس وقت کے مسلم نامور حکمرانوں شاہ فیصل‘ کرنل قذافی‘ صدام حسین‘ انورسادات سمیت کثیر تعداد میں سربراہوں نے شرکت کی اور دنیا کو یہ پیغام گیا کہ اب مسلم بلاک کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جو مستقبل میں بیک آواز ہوکر دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادتوں پر مؤثر آواز ثابت ہوں گے اور اب دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو لاوارث تصور نہیں کیا جاسکے گا بلکہ انکے مفادات کا تحفظ تمام مسلم ممالک مل کر کریں گے۔
1974ء میں عالمی طور پر دو سپر پاور تھیں جو زیادہ تر باہم دست و گریباں رہتی تھیں اور مسلمان ممالک قدرے امریکی عتاب سے محفوظ تھے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے والے مسلم حکمرانوں کو ایک ایک کرکے امریکہ نے عبرت ناک انجام تک پہنچایا جن میں سے میزبان ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا گیا جس کا اعتراف سپریم کورٹ کے اس بنچ میں موجود سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کیا تھا کہ ہم نے دباؤ میں آکر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا حکم برقرار رکھا۔ سعودی بادشاہ شاہ فیصل کو انکے بھتیجے کے ذریعے قتل کرایا گیا اور انور سادات پر پریڈ کے دوران فوجی بغاوت کے ذریعے حملہ کرایا گیا۔ کرنل قذافی اور صدام حسین کو بھی نشان عبرت بنادیا گیا کیونکہ یہ تمام لیڈرز مل کر مسلم بلاک کی تشکیل کیلئے برسرپیکار تھے ۔ کفار نے ایسا جال بچھایا کہ ایک ایک کرکے دلیر‘ نامور مسلم لیڈرز کا دنیا سے خاتمہ کردیا گیا۔
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پاکستان نے روس افغان جنگ میں جو حماقت کی اس کا خمیازہ دنیا بھگت رہی ہے۔ امریکہ نے روس سے ویتنام کا بدلہ لینے کیلئے افغانستان میں روس کو پاکستان کے ذریعے گھیر کر نہ صرف بدترین شکست سے دوچار کیا بلکہ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ روس کی سپرپاور حیثیت ختم ہونے کے بعد امریک دنیا کا واحد ایس ایچ او بن بیٹھا ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کررہا ہے۔
1979ء میں میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان نے کہا تھا کہ اس وقت 2سپر پاورز روس ا ور امریکہ ہیں جو ہر وقت باہم دست و گریباں رہتی ہیں اور پاکستان کو افغان جنگ میں امریکی مفادات کیلئے نہیں لڑنا چاہئے اور اگر ہم نے یہ حماقت کی تو ہماری آئندہ 4-5نسلیں اسکے نقصانات کا سامنا کریں گی۔ ایئرمارشل اصغر خان نے افغان جنگ میں امریکہ پروپیگنڈے کی بنیاد پر روس کا تعاقب کرنے کے نقصانات بتادیئے تھے اور انہوں نے بروقت کہہ دیا تھا کہ امریکہ اگر واحد سپرپاور بچ گئی تو مسلمانوں کو اسکے عتاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے ایئرمارشل اصغر خان کو ’’روس کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت امریکی ڈالرز کی برسات میں پاکستان کی قیادت‘ سیاسی و کئی مذہبی جماعتیں افغانستان کی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے رہی تھیںاور یہ بات کوئی سننے کو تیار نہیں تھا کہ روس کا تعاقب اور تقسیم مسلم دنیا کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔اب وہی پاکستان کے سیاستدان اور مذہبی رہنما اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ واقعی یہ امریکی مفادات کی جنگ تھی۔
بہرحال پاکستان نے امریکی ڈالرز‘ اسلحہ ‘ تربیت اور پروپیگنڈے کے باعث افغانستان میں روس کا تعاقب کیا ۔افغانستان پر حملہ گورباچوف کی سنگین حماقت تھی کیونکہ جب تک آپ معاشی طاقت نہ ہوں اس وقت تک آپ اپنے ملک کا بہتر دفاع نہیں کرسکتے حالانکہ روس کے پاس سینکڑوں ایٹم بم تھے لیکن معاشی کمزوری نے روس کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور روس افغان جنگ میں معاشی طور پر تباہ ہوگیا جسکے باعث اپناسپر پاور اسٹیٹس برقرار نہ رکھ سکا اور پاکستان کے باعث امریکہ دنیا کی سپرپاور بن گیا جس نے بلاشرکت غیرے مسلمانوں کو اپنا اولین ہدف بنالیا۔امریکہ نے روس کیخلاف لڑنے والوں کو جنگ کے دوران مجاہدین قرار دے رکھا تھا لیکن جیسے ہی روس کو شکست فاش ہوئی تو امریکہ نے مجاہدین کو پہلے طالبان‘ پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان سے نظریں پھیر لیں اور مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیکر ان کیلئے زمین تنگ کردی۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کے حصول تک ہمارا دوست تھا ۔ اسکے بعد امریکہ نے کھل کر پاکستان کو بھی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔اقوام متحدہ کے قیام کے وقت ’’ویٹو پاور‘‘ کا اختیار ہی غیر منصفانہ ہے جس کی بنیاد پر 5ممالک کی منشاء کے بغیر دنیا میں کہیں بھی مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ اقوام متحدہ کا کردار تو صرف امریکی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں رہ گیا لیکن ساتھ ساتھ او آئی سی بھی مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کرنے سے زیادہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ زیادہ تر مسلم حکمرانوں کی ذاتی دولت امریکہ اور یورپ میں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذاتی دولت بچانے کیلئے کبھی بھی امریکہ و یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف اکثریت مسلم حکمرانوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ نعوذباﷲ ان کو اقتدار دینے والی ذات امریکہ و یورپ کے حکمرانوں کی ہے۔
واحد سپر پاور امریکہ اس وقت دنیا کا چوہدری بنا ہوا ہے اور ہر جگہ مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں جس پر نہ تو اقوام متحدہ کوئی ایکشن لینے کو تیار ہے اور نہ ہی او آئی سی یا مسلم حکمران۔ کشمیر‘ برما‘ شام‘ لیبیا اور فلسطین میں مسلمان مظالم کا شکار ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ افغان جنگ میں روس کا تعاقب کرنے سے ایک طرف امریکہ مسلم دنیا کیلئے زیادہ مسائل پیدا کرنے کا حامل ہو گیا تو دوسری طرف امریکہ نے پاکستان سے مفادات حاصل کرکے کنارہ کشی اختیار کرلی اور افغان جنگ میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث پاکستان بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس بات پر اتفاق رائے کریں کہ مسلم حکمران اپنی دولت یورپ و امریکہ سے مرحلہ وار سمیٹ کر اس دولت کا استعمال غریب مسلم ممالک میں کریں جس سے مسلم ممالک طاقتور ہوجائیں اور امریکہ و یورپ مسلمانوں کی دولت سے ہی مسلمانوں کا قتل عام کرنے سے باز آسکیں۔ اگر عرب ممالک کے حکمران یکسوئی سے اپنی سرمایہ کاری غریب مسلم ممالک کی جانب موڑ دیں تو مستقبل قریب میں مسلم ممالک یکجا اور طاقتور ہوسکتے ہیں اور معاشی مضبوطی کے بعد کفار کا مقابلہ آسان ہوجائیگا۔مسلم ممالک باہمی تنازعات کے خاتمے کی جانب بھی توجہ مبذول کرکے معمولی تنازعات کا خاتمہ یقینی بنائیں تاکہ ایک منظم اتحاد کا مظاہرہ کرکے مظلوم مسلمانوں کو حق دلایا جاسکے۔