تحریر ۔احسان الحق،رحیم یار خان
ihsan.nw@gmail.com
ملکی سیاست پر پچھلی کئی دہائیوں سے شوگر ملز مالکان کی لابی قابض ہونے اور ملکی سیاست پر اسکے مسلسل مضر ’’اثرات‘‘ کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار تقریباً ایک سال قبل جب وزیر اعظم عمران خان نے اس شوگر لابی کے ’’دن دگنی رات چوگنی‘‘ ترقی کے بارے میں آڈٹ کا فیصلہ کیا تو اس سے ملکی سیاست میں ایک ہلچل سی دیکھی گئی اور کئی حلقوں نے وزیر اعظم کے اس عمل کو انکی جانب سے اپنی سیاست پر ایک خود کش حملہ قرار دیا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے انتہائی قریبی دوست جہانگیر ترین سمیت پوری شوگر لابی کی مکمل تحقیقات کے احکامات جاری کئے اور اس مقصد کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ایسے ہوشربا انکشافات کئے گئے جس کی عوام کو بالکل توقع نہ تھی۔باخبر ذرائع کہتے ہیں وزیر اعظم کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ ان شوگر ملز مالکان کی جانب سے ملکی سیاست میں اربوں روپے کی جو’’سرمایہ کاری‘‘ اس شوگر لابی کی جانب سے کی جاتی ہے وہ دراصل اس پیسے کے حقیقی مالک ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ وہ پیسہ ہوتا ہے جو شوگر ملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کو گنا خرید کر ادا ہی نہیں کرتے اور کاشتکار اپنے اس پیسے کے حصول کے لئے برسوں دھکے کھانے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی ان شوگر ملز مالکان کی جانب سے پیسے نہ ملنے کے باعث انتہائی کسمپرسی میں گزار دیتے ہیں لیکن شوگر ملز مالکان کسانوں کے اس پیسے سے عیاشی کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست سے بھی کھیلتے رہتے ہیںجس پر وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ1950ء میں ایسی ضروری ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا کہ جس سے گنے کے کاشتکاروں کو مکمل تحفظ مل سکے اس خبر سے گنے کے کاشتکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔2020ء میں کرشنگ سیزن شروع ہونے سے کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ عثمان کی انتھک کوششوں سے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ1950ء میں جو ضروری ترامیم کر کے ایک نیا شوگر فیکٹریز کنٹرول آرڈیننس2020ء جاری کیا گیا اس کے مطابق پنجاب بھر میں تمام شوگر ملز کرشنگ سیزن جو کہ اس سے قبل دسمبر کے پہلے ہفتے میں شروع ہوتا تھا اب دس سے پندرہ نومبر تک شروع کرنے کی پابند ہونگی اور ایسا نہ کرنے والی شوگر ملز کو یومیہ پانچ لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ ساتھ اس کے مالکان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج ہو سکیں گے جبکہ گنا خریدنے کے عوض جاری ہونے والی سی پی آر کو اب چیک کا درجہ حاصل ہو گااس سی پی آر کی ادائیگی پندرہ روز کے اندر اندر نہ ہونے سے شوگر ملز مالکان کے خلاف چیک باؤنس ہونے جیسی قانونی کارروائی ہو سکے گی جبکہ کسانوں کی جانب سے شوگر ملز میں لائے جانے والے گنے سے ناجائز کٹوتیوں پر بھی شوگر ملز مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے گی ۔اس آرڈیننس کے فوری نفاذ سے پنجاب بھر کے گنے کے کاشتکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہیں بروقت اور مکمل معاوضہ ملنے کا پہلی بار یقین ہو گیا۔اس آرڈیننس کے نفاذکے بعد رحیم یار خان سمیت پنجاب بھر میں گنے کے کاشتکاروں کو ملکی تاریخ میں پہلی بار شوگر ملز سے ادائیگیاں بر وقت شروع ہو گئیں اور خیال ظاہر کیا جانے لگا کہ مذکورہ آرڈیننس بہت جلد پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد قانون بن جائے گا جس کے بعد گنے کے کاشتکار وں کو ہمیشہ کے لئے شوگر ملز مالکان کے چنگل سے نجات مل جائے گی ۔مگر شو مئی قسمت کہ اس ملک کی طاقتور شوگر لابی نے ایک بار پھر اپنا’’اثر‘‘ دکھایا اور اس آرڈیننس کو پنجاب اسمبلی سے پاس ہی نہ ہونے دیا اور یہ آرڈیننس ختم ہونے کے باعث شوگر ملز مالکان نے ایک بار پھر کاشتکاروں کو خریدے گئے گنے کی ادائیگیاں روک دیں اور کاشتکار تنظیموں کے مطابق پنجاب بھر کی شوگر ملز نے ابھی بھی کاشتکاروں کو دس ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیںجس سے توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان ایک بار پھرایکشن میں نظر آئیں گے اور مذکورہ آرڈیننس کو قانون کی شکل دیںگے تاکہ گنے کے کاشتکاروں کا معاشی مستقبل محفوظ بنایا جا سکے مگر اس موقع پر طاقتور شوگر لابی نے ایک بار اپنا کام دکھایا اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مئی کے پہلے ہفتے میں ایک نیا شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ منظور کروا لیا جس میں کاشتکاروں کے تحفظ کیلئے پہلے آرڈیننس میں شامل کی گئی تمام ترامیم ختم کر کے ایک بار پھر شوگر ملز مالکان دوست ایکٹ جاری کر دیا گیا جس کے مطابق شوگر ملز اب دس سے پندرہ نومبر کی بجائے30نومبر سے نیا کرشنگ سیزن شروع کر سکیں گی جبکہ کاشتکاروں سے خریدے گئے گنے کی ادائیگی پندرہ دن کی بجائے اگلے سال تیس جون تک کر سکیں گی اور اسکے علاوہ گنے پر کی گئی ناجائز کٹوٹیوں پر اب شوگر ملز مالکان پر فوجداری مقدمات بھی دائر نہیں ہو سکیں گے۔اس ایکٹ کا اعلان ہوتے ہی رحیم یار خان سمیت پنجاب بھر کے کاشتکاروں میں انتہائی تشویش کی لہر دوڑ گئی اور کاشتکاروں نے اس نئے ایکٹ کو شوگر مافیا کی کامیابی قرار دیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس لابی کے سامنے بے بس قرار دیا جس پر وزیر اعظم عمران خان ایک بار پھر ایکشن میں نظر آئے اور انہوں نے اس ایکٹ میں کی گئی ترامیم واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو فوری طور پر نیا ایکٹ لانے کی ہدایات جاری کیںتاکہ گنے کے کاشتکاروں کا تحفظ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں اس طاقتور شوگر لابی کا اثر و رسوخ کم کیا جا سکے۔
ملکی سیاست کو ضلع رحیم یار خان کو اس لحاظ سے اس وقت ایک منفرد حیثیت حاصل ہے کہ اس ضلع میں تین حکومتی فریق ہیں جن میں پی ٹی آئی اورجہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے علاوہ پی پی پی کے وہ دو ایم پی ایز بھی شامل ہیں جو متعدد بار وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں جس کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پچھلے کافی عرصہ سے ضلع رحیم یار خان کیلئے ترقیاتی پیکج اناؤنس کرنے میں ناصرف کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اسی کشمکش کے باعث انکا دورہ رحیم یار خان پچھلے دو ماہ کے دوران چھ سات مرتبہ ملتوی ہو چکا ہے اور ضلع رحیم یار خان کے عوام انکی آج بھی راہ تک رہے ہیں تاکہ انکے ضلع کے لئے بھی کوئی ترقیاتی پیکج اناؤنس ہونے سے اس ضلع کی بھی کوئی شکل نکھر کر سامنے آ سکے۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ رحیم یار خان سے پی پی پی کے دو ایم پی ایز سردار غضنفر علی لنگاہ اور رئیس نبیل احمد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے متعدد بار ملاقات کر کے ان پر اپنے مکمل اعتماد کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں جس کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار انہیں کئی کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی جاری کر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ان دونوں ایم پی ایز سے ضلع کے مجوزہ ترقیاتی پیکج سے بھی انکے حلقوں کے لئے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں جس کے باعث پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے اراکین اسمبلی میں تشویش دیکھی جا رہی ہے اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو یہ یہی تشویش دورہ رحیم یار خان پر آنے سے روک رہی ہے جس کا خمیازہ شائد رحیم یار خان کے عوام کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
25 05 2021