نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اسے بیچو گے؟ میں نے کہا جی یا رسول اللہ چنانچہ اونٹ میں نے آپ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو بیچ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس (سونے) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ حضرت انہیں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں (اور باپ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت یے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا، تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا مالدار کی طرف سے (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا (قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خریدو فروخت کرتا تھا۔ (اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کردیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہوگئی۔ ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب معاذ رضی اللہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ جب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے (اور کچھ نے زکوٰة سے انکار کردیا اور ابوبکر ؓ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کرسکتے ہیں مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دیدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہوجائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰة اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰة کے لیے انکار کر دے) کیونکہ زکوٰة مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰة میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی حق پر تھے۔