الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، اوورسیز پاکستا نیوں کے ووٹ کی تر ا میم ختم 

May 27, 2022


اسلام آباد (نا مہ نگار) قومی اسمبلی نے الیکشن ترمیمی بل 2022اور قومی احتساب (دوسری ترمیم) بل 2021 کی منظوری دیدی ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم)اور اوورسیز ووٹنگ سے متعلق گزشتہ حکومت کی ترامیم ختم کردی گئی ہیں جبکہ نیب ترمیمی بل کے مطابق ترامیم کے مطابق نیب گرفتار شدگان کو 24گھنٹوں میں نیب کورٹ میں پیش کرنے پابند ہوگا، کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکے گی۔پارلیمانی امور کے وزیر مرتضی جاوید عباسی نے بلز اسمبلی میں پیش کیے، الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 94میں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے پائلٹ پروجیکٹس کر سکتا ہے تاکہ اس طرح کی ووٹنگ کی تکنیکی افادیت، رازداری، سیکورٹی اور مالی امکانات کا پتہ لگایا جا سکے اور حکومت کے ساتھ نتائج کا اشتراک کرے۔ سیکشن 103میں ترمیم کے تحت ای سی پی ضمنی انتخابات میں ای وی ایم اور بائیو میٹرک تصدیق کے نظام کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹس کر سکتا ہے۔ جمعرات کو سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، متعلقہ قائمہ کمیٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے بل کو براہ راست سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجنے کی اجازت دینے کی تحریک پیش کی، قومی اسمبلی میں بھی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی، بل آج سینیٹ میں بھیجے جانے کا امکان ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج پیش کیا گیا بل الیکشن ایکٹ 2017کو اِن ترامیم سے پہلے کی شکل میں بحال کرنے کی کوشش ہے جس سے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنائے جا سکیں گے۔ وزیر قانون نے کہا کہ ای وی ایم مشین پر الیکشن کمیشن میں بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے، انہوں نے کہا کہ نئے بل کے تحت ایکٹ کے سیکشن 94اور 103میں 2 ترامیم کی جا رہی ہیں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بیرون ملک ووٹنگ اور ای وی ایم کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹس چلانا ہوگی۔ وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ای وی ایم کے استعمال پر اعتراضات اٹھائے تھے، حکومت ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہے۔ ہمیں صرف ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے بارے میں خدشات ہیں کیونکہ گزشتہ عام انتخابات میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کی خاطر نتائج کی ترسیل کا نظام ناکام ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور حکومت ان سے ووٹ کا حق چھیننے پر یقین نہیں رکھتی۔ سابقہ حکومت نے سول سرونٹس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، بغیرکسی ثبوت کے جیل میں ڈالا گیا،  ججز نے کہاکہ نیب کو سیاستدانوں کو دیوار سے لگانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ آج ہم اس عقوبت خانے سے 22کروڑ عوام کو نکالیں گے، ہم یہ قانون بھگت چکے ہیں، نہیں چاہتے کہ دیگر لوگ اس کا شکار ہوں،  جب کئی جرائم میں ضمانت ہے تو پھر نیب کے کیسز میں ضمانت کیوں نہیں؟ ہم اس نظام کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں، نہ این آر او دینا چاہ رہے ہیں اور نہ لینا چاہ رہے ہیں، یہ پارلیمان ایسا قانون نہیں بناسکتی جو اسلام سے منافی ہو۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیب اب 6ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا، نیب گرفتار شدگان کو24 گھنٹوں میں نیب کورٹ عدالت میں پیش کرنے پابند ہوگا  جبکہ نیب کیس دائر کرنے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکے گی، نیب گرفتاری سے پہلے مناسب ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا، نیب قانون میں ترمیم کرکے ریمانڈ 90 دن سے کم کرکے 14دن کر رہے ہیں۔  وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے حاضر سروس جج صاحبان کو لگایا جائے گا۔ اسلامی قوانین کے منافی ہم کوئی قانون نہیں بنا سکتے۔  پلی بارگین اور رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے حوالے سے بھی قانون کو بہتر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپیل ہائی کورٹ میں دس دن بعد داخل کرنا ہوتی تھی اب اسے 30 دن کردیا گیا ہے۔ ضمانت کا ہائی کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے اگر ہائی کورٹ ضروری سمجھے تو سزا معطل بھی کر سکتی ہے۔  چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے، ان کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج مل جائے گا۔نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے مشاورتی عمل 2ماہ پہلے شروع کیا جائے گا، مشاورتی عمل 40روز میں مکمل ہوگا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تقرر کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا، پارلیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30روز میں فائنل کرے گی، چیئرمین نیب کی 3سالہ مدت کے بعد اسی شخصیت کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جاسکے گا۔ ڈپٹی چیئرمین کی تقرر کا اختیار صدر سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا جائے گا۔ترمیم کے ذریعے وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا اسکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی۔ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔ترامیم کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی۔ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔ احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کریں گی۔ نیب انکوائری کے لیے نئے قانون کے تحت مدت کا تعین کر دیا گیا نیب اب 6ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا، نیب گرفتار شدگان کو 24گھنٹوں کے اندر نیب کورٹ عدالت میں پیش کرنے کا بھی پابند ہوگا۔نئے قوانین کے مطابق کیس دائر کرنے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکے گی، نیب گرفتاری سے قبل تسلی بخش ثبوت کی دستیابی یقینی بنائے گا،  نیب ملزم کے لیے اپیل کا حق 10روز سے پڑھا کر 30روز کر دیا گیا ہے۔ملزم کے خلاف ریفرنس دائر ہونے تک کوئی نیب افسر میڈیا میں بیان نہیں دے گا۔ ترامیم کے تحت ریفرنس دائر ہونے سے قبل بیان دینے پر متعلقہ نیب افسر کو ایک سال تک قید اور 10لاکھ تک جرمانہ عائد ہوسکے گا، کسی کے خلاف کیس جھوٹا ثابت ہونے پر ذمہ دار شخص کو 5سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی، لیمانی کمیٹی چیئرمین نیب کا نام 30روز میں فائنل کرے گی جبکہ چیئرمین نیب کی 3سالہ مدت کے بعد اسی شخص کو دوبارہ چیئرمین نیب نہیں لگایا جائے گا۔
اسلام آباد (نا مہ نگار) اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ملک کے ہر حصے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، کئی مقامات آج بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں، اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد نے کہا کہ ملک کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ نہیں ہے۔ ملک اور قوم کے مفاد میں الیکشن ایکٹ میں ترامیم ہونی چاہئیں۔ پچھلی حکومت نے درست قانون سازی کی ہے۔ لوگوں کو ووٹ ڈالنے میں سہولت دی جائے اور دھاندلی کا راستہ روکا جانا چاہیے۔وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ ہم الیکشن لڑ کے اپنے ووٹروں کو متحرک کرکے جس طرح یہاں آئے ہیں اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ ملک کے بعض پہاڑی اور ریگستانی علاقے ایسے ہیں جہاں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کا جو ہماری حقیقت میں کردار اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان کا ووٹ کا حق نہیں لیا جارہا۔ جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پچھلی حکومت میں اس بل کی مخالفت کی تھی،  ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت اپنے دن پورے کرے۔  پارٹی سربراہوں کو طلب کر کے بل پر رائے لینی چاہیے۔ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ آنے تک تمام فریقین کی رائے لے کر متفقہ قانون سازی کی جائے ۔جی ڈی اے کے رکن اسمبلی غوث بخش مہر نے کہا  پورے ملک میں نہیں تو کچھ جگہوں پر ای وی ایم استعمال کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیب میں ترامیم کا بل بھی ایوان منظور کر لیا گیا۔ قومی احتساب ترمیم دوم بل2021 ایوان میں وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے پیش کیا۔ رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ نیب قانون مارشل لا کی پیداوار ہے، غوث بخش مہر نے کہا کہ اگر سزائیں قانون کے مطابق ملیں گی تو حکومت کی نیک نامی ہوگی سزائیں شریعت کے مطابق رکھی جائیں۔ قادر خان مندوخیل نے کہا کہ اس کالے قانون کی وجہ سے کرپشن ختم ہونے کی بجائے بڑھی ہے۔  قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران 2023کے الیکشن کے لیے اخراجات کی تفصیلات جاری کردی گئیں۔ایوان میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق الیکشن کمیشن نے آئندہانتخابات کے لیے 47ارب 41کروڑ روپے جبکہ انتخابات میں آرمی سمیت سیکورٹی کے لیے 15ارب روپے کا تخمینہ پیش کیا ہے۔دستاویز کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ کرانے کے لیے 5ارب 60روپے کے اخراجات جبکہ بیلٹ پیپرز کی اشاعت کے لیے 4ارب 83کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔دستاویز کے مطابق انتخابی عملے کی تربیت کے لیے ایک ارب 79کروڑ روپے خرچ ہوں گے، پنجاب میں انتخابات کے لیے 9ارب 65کروڑ روپے، سندھ میں انتخابات کے لیے 3ارب 65کروڑ روپے، خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 3ارب 95کروڑ روپے اور بلوچستان میں انتخابات کے لیے ایک ارب 11کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ دیا گیا ہے۔

مزیدخبریں