’’نہ ہم پہلے کسی کے آگے جھکے تھے نہ ہی آئندہ جھکیں گے‘‘ یہ تھیم ہے اس عشرۂ تقریبات کا جو ’’یومِ تکبیر ‘‘ کے حوالے سے منایا جا رہا ہے۔ یوم تکبیر پاکستانی قوم کے لیے قومی غیرت ، قوم کی بے مثال جرأت و بہادری کی علامت کا دن ہے۔ یوم تکبیر پیغام ہے وطن دشمنوں کیلیے کہ ’’اگر پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی غلطی کی یا کسی ’ایڈونچر‘کا سوچا تو اس کا انجام عبرت ناک ہو گا‘‘پاکستان کی تاریخ میں 28مئی وہ یاد گار دن ہے جب1998ء میں بھارت کے علاقے راجستھان کے پہاڑٰ ی سلسلے ’’پوکھران‘‘ میں ’آپریشن شکتی‘ کے نام سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی کی پہاڑیوں’’ راس کوہ‘‘ میں ایٹمی دھماکے کر کے،بھارت کو دندان شکن اور منہ توڑ جواب د ے کر پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا یا اوربھارت کو واضح پیغام دیا کہ ’’نہ ہم پہلے کسی کے آگے جھکے ہیں نہ آئندہ جھکیں گے‘‘ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان مسلم ممالک کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے طور پر ابھر کر دنیا کے سامنے آیا۔ اس تناظر میں 28مئی کا دن’’یوم تکبیر‘‘(عظمت کا دن) کے طور پرپاکستان میں شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں قومی اہیت کے حوالے سے ایسے دن منانے میں خاص حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ جب ایسے دن منائے جاتے ہیں توان کا بنیادی مقصد اس دن کی اہمیت سے قوم کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے قومی نوعیت اور اہمیت کے دن منانے سے جہاں عوام اپنی تاریخ، رول ماڈلز،اپنے ہیروز اور اسلاف کی بے مثال جدوجہداور قربانیوں سے واقف ہوتے ہیں وہاں ایسے دن تاریخ، عقیدت اور عقیدے کے مطابق عوام کی تربیت کا باعث بھی بنتے ہیں۔ 11اور13مئی 1998ء کوبھارت نے جب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کی توبھارت کی اس حرکت پر پاکستان کی تذبذب کی کیفیت پر دشمن نے خوب بغلیں بجائیں۔بھارتی سیاستدانوں ،دانشوروں اور بھارتی میڈیا نے خاصے غرور و تکبر دا مظاہرہ کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ’’پاکستان کی محض دھمکیاں ہیں اسکے پاس ایٹم بم نام کی کوئی چیز نہیں،وہ ایٹمی دھماکے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا‘‘، اصل میں پاکستان کے اندر کچھ امریکا نواز ،پاکستان کو دھماکا کرنے سے یہ کہہ کر ڈرا تے رہے کہ ’’اس سے امریکا بہادر ناراض ہو جائیگااور پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی صورت میں ہماری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘، اس میں شک نہیں کہ پاکستان پر ایٹمی دھماکا کرنے کے حوالے سے امریکا کا بہت دباؤ تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے دھماکا رکوانے کیلیے 5ارب ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی جو خاصی دلکش تھی، جس سے پاکستان کے اقتصادی مسئلے حل ہو سکتے تھے، اقتصادی پابندیوں کی دھمکی کے مقابلے میں ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا یہی موقع تھا۔ طویل سوچ بچار کے بعد وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور انکے رفقاء نے امریکی پیشکش ٹھکرا کر، دھمکیوں اور دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ، اس راستے کا انتخاب کیا جو کسی بھی غیرت مند قوم کو کرنا چاہیے تھا۔ یوںبھارت کے مقابلے میں پاکستان کی اس ایٹمی صلاحیت نے بھارت کا اکھنڈ بھارت کاخواب چکنا چور کر دیا۔ بھارت کا آزادکشمیر پر قبضے اور پاکستان پر فوج کشی کی دھمکیاں بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر اس کام کی بنیاد رکھی۔ اس مقصد کیلئے بھر پورتعاون کے علاوہ انہیں ’ان آڈٹ ایبل فنڈز‘ مہیا کیے گئے۔پاکستان کو جوہری طاقت بنانے میں تین اداروں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان میںKRL(کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز)سرِ فہرست ہے۔ جس کے سربراہ ڈاکٹر قدیر خان خود تھے۔ اس میں انہیں معروف سائنسدان تسنیم ایم شاہ کی معاونت حاصل رہی۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت میں بدلنے میںPAEC (پاکستان اٹامِک انرجی کمیشن)کی خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں۔جس کے چیئرمین سائنسدان اشفاق احمد تھے اور ممبران میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند ، عرفان برکی، حفیظ قریشی اور مسعود شامل تھے۔انہیں PACE (پاکستان آرمی کور آف انجینئرنگ) نے بھی مدد دی ، جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان تھے، ان اداروں کی مشترکہ محنت کی بدولت پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔ پاکستان کے ایٹمی تجربے نے دشمن کو یہ پیغام دیا گیاکہ ’’اب پاکستان سے ’پنگا‘ لینے سے پہلے ذرا سوچ لینا‘‘ بھارت نے کسی ایڈونچر کی کوشش کی تو بھارت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینگے‘، پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے متعدد بار افواج بارڈر پر لاکر جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی مگر اس سے آگے اُسے جرأت نہیں ہوئی، گذشتہ سال اس نے ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کے نام پر ایڈونچر کی کوشش کی ، جواب میں ’’ابھی نندن‘‘ بد نامی کا داغ بن کر ہمیشہ کیلئے، بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بن گیا۔
’’نہ جھکے تھے نہ جھکیں گے‘‘ یومِ تکبیرکے تناظر میں
May 27, 2022