جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ موجودہ جاری مسلح تحریک آزادی کشمیر کی بانی جماعت ہے۔ 1989ء میں اس تنظیم نے اس وقت بھارتی سامراج کو للکارا اور ’’بھارتی غاضبو کشمیر ہمارا چھوڑ دو‘‘ کا نعرہ لگایا جب کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کشمیری ہتھیار اٹھا کر میدان میں اتر سکتے ہیں۔ اس وقت بڑے بڑے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کے رہنما بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھا کر ریاستی اسمبلی کے رکن بھی رہے تھے الیکشن میں دھاندلی کیخلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت اسلامک سٹوڈنٹس موومنٹ کے ان چند سر پھرے جوانوں نے جنہیں مسلح تربیت مل گئی تھی۔ میدان عمل میں کود پڑے، جن میں جے کے ایل ایف کے پہلے مسلح کمانڈر اشفاق دانی شہید، حمید شیخ شہید، یٰسین ملک اور جاوید میر سرفہرست تھے۔ انہوں نے وادی کشمیر کو جو ویسے بھی گل گلنار تھے اپنے اور سینکڑوں شہیدوں کے لہو سے واقعی گلزار بنا دیا۔
یہ تنظیم 1984ء میں مقبول بٹ شہید کے تہاڑ جیل میں پھانسی کے بعد وجود میں آئی جو بھارت سے علیحدگی اور خود مختار کشمیر کے نعرے کے ساتھ میدان میں اتری اور یہ کشمیر کی قومی خودمختاری کی تحریک کے طور پر پیش ہوئی۔ اس وقت یٰسین ملک ا س کے چیئرمین ہیں جو بلاشبہ پورے کشمیر میں ایک قومی رہنما کے طور پر مقبول ہیں انہیں ہر طبقے کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ مولوی عمر فاروق اور مرحوم علی گیلانی کو بھی ان پر مکمل اعتماد تھا۔ یٰسین ملک کی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں اور ایذا رسانی کے مراکز میں بند گزرا دل کے مریض ہونے کے باوجود وہ حالات بیماری میں بھی تحریک آزادی کشمیر میں مسلسل برسرپیکار رہے۔ جس کی وجہ سے بھارت ان سے خائف ہے۔
مقبول بٹ کے بعد افضل گورو دوسرا بڑا نام ہے جسے بھارت کے تہاڑ جیل میں تحریک آزادی کے جرم میں پھانسی دیکر مقبول بٹ کی طرح جیل میں ہی خفیہ طور پر دفن کر دیا گیا تاکہ ان کی نعش لے کر کشمیر میں کوئی بڑا ہنگامہ نہ ہو۔ اب یہی صورتحال جے کے ایل ایف کے چیئرمین یٰسین ملک کو درپیش ہے جن پر بغاوت اور غداری کے درجنوں الزامات ہیں یہ وہی الزامات ہیں جو ہر غاضب حکومت آزادی پسندوں پر لگاتی رہی ہے اور تاریخ نے ان الزامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے۔ یٰسین ملک کو بھارت کی کینگرو سپریم کورٹ نے جن الزامات پر سزا سنائی ہے اس پر خود یٰسین ملک نے عدالت سے سوال کیا ہے کہ اگر وہ غدار ہے دہشت گرد ہے تو بھارت کے 7 وزرائے اعظم اس سے ملے کیوں تھے۔ اسے بھارت کا پاسپورٹ کیوں جاری ہوا تھا۔ اسے کھلے عام بھارتی شہروں میں سرکاری غیر سرکاری میڈیا ہائوس میں اداروں میں کیوں اظہار خیال کے لیے بلایا جاتا اس کی تقاریر سنی جاتیں اور سوال و جواب ہوتے، ان باتوں کا بھارتی سپریم کورٹ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ مودی حکومت تو یٰسین ملک کو پھانسی پر لٹکانا چاہتی تھی عدالت کا موڈ بھی یہی تھا مگر عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید احتجاج کے خوف سے انہوں نے یٰسین ملک کو موت کی سزا تو نہ دی مگر 2 بار عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کر کے انہیں عملاً زندہ درگور کرنے کی پوری کوشش کی ہے تاکہ آزاد کشمیر کا خواب دیکھنے والا یہ مجاہد تہاڑ جیل میں ہی ابدی نیند سو جائے۔
بھارت کے حکمران اور وہاں کی کینگرو کورٹس جو چاہئے کر لیں تحریک آزادی کشمیرکا خاتمہ ان کے لئے خواب رہی گا۔ 2019ء میں کشمیر کو جبری طور پر تقسیم کرکے بھارت میں ضم کرنے کے باوجود کشمیری بھارت کی غلامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب جبری طور پر وہاں مسلمان اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں سے زمینیں چھین کر وہاں ہندوؤں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح کم از کم 10 سے 15 لاکھ ہندوؤں کو جموں کے متصل مسلم علاقوں میں لا کر آباد کیا جائے۔ اس طرح کشمیر کی مسلم اکثریت شناخت ختم کی جائے نئی حلقہ بندیوں کے نام پر ریاستی اسمبلی میں یکدم ہندو نشستوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تاکہ کسی بھی وقت الیکشن کے نام پر فراڈ کرکے ریاستی اسمبلی میں بی جے بی کو اکثریت دلائی جائے جو کشمیر کے بھارت کے مستقل صوبہ یا ریاست ہونے کے بھارتی حکومت کے فیصلے پر تصدیقی مہر لگا دے۔
یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ اس وقت یاسین ملک کو سزا کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی ہڑتال جاری ہے۔ پاکستان میں سیاسی افراتفری کے باوجود حکومت پاکستان اور تمام سیاسی جماعتوں نے سزا کی بھرپور مذمت کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ مسئلہ انسانی حقوق کی تنظیموں‘عالمی اداروں اور غیرملکی حکمرانوں کے سامنے اٹھایا جائے۔ کیونکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے۔ یہ متنازعہ علاقہ ہے جہاں بھارت کو اس طرح من مانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ہو سکے تو او آئی سی جو اسلامی ممالک کا اتحاد ہے۔ اسے بھی اس بارے میں آمادہ کیا جائے کہ وہ بھارت کی مذمت کرے۔
مقبول بٹ کا قافلہ جھکا نہیں بکا نہیں
May 27, 2022