یہ اندازِ سیاست کیا گل کھلائے گی  

ہماری سیاست کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم جمہوریت جمہوریت کا شور تو مچاتے لیکن عملاً ہم آمریت کے دلدادہ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہ اختلاف رائے کو قطعاً پسند نہیں کرتے اور جو لیڈر کی سوچ کے برعکس  پارٹی کے مفاد میں اپنی کوئی رائے دینا چاہے تو اس کو پارٹی سے نکال باہر کرتے ہیں کیونکہ انہیں صرف جی حضوری اور واہ واہ کرنے والے ہی پسند ہیں اور یہی درباری لوگ وزارتیں عہدے اور مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ہماری سیاست کا دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمران پارٹی کو اپنے سوا سب جمہوریت دشمن، ملک دشمن اور چور ڈاکو نظر آتے ہیں۔ حکمران جماعت کو اپوزیشن کی ہر بات اور مشورہ ایک سازش ہی نظر آتی ہے ان کی نظر میں قومی ادارے ان کے تابعدار اور فرمانبردار ہونے چاہئیں یہ ان اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر بھی کاٹھی ڈالنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں یہ اپنے من پسند پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو نوازنے اور مخالفین کو کھڈے لائن لگانے کو جائز سمجھتے ہیں یہی حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر اپنے رویوں اور روش کو بھول جاتے ہیں اور انہیں آ نے والی حکومت میں ہر وہ خرابی نظر آتی ہے جس کا وہ اقتدار کے نشے میں خود ارتکاب کرتے رہے ۔آج کل  ہمارے سیاستدانوں کے درمیان اس وقت گالی گلوچ، بدتمیزی ، بداخلاقی اور گھٹیا زبان استعمال کرنے کا ’’سرپھٹول میچ‘‘ جاری ہے جس کی وجہ سے جہاں عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے وہاں ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ مالیاتی اور معاشی امور کے ماہرین یہاں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ 
غیر ملکی قرضوں کے بوجھ، بجٹ خسارہ بڑھنے، زرمبادلہ ذخائر میں کمی، شرح سود میں اضافے توازن تجارت بگڑنے، توانائی کے بحران اور ڈالر کی انتہائی اونچی اڑان کی وجہ سے ہماری معیشت حقیقتاً وینٹی لیٹر پر ہے دوسری طرف آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط کے ساتھ ہمارے اوپر مسلسل چڑھائی کر رہا ہے۔ ہم ان عالمی ساہوکاروں سے محض 5 یا 6 ارب ڈالر سالانہ قسطوں پر لینے کیلئے اپنا کشکولِ گدائی آگے کر دیتے ہیں جس سے ہماری عزت اور خودداری بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے جبکہ ہمارے اپنے محب وطن اوورسیز پاکستانی ہر ماہ 2 ارب سے 3 ارب ڈالر ارسال کر رہے ہیں اگر ہم ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو حل کر دیں اور ان کو مراعات دیں تو یہ اپنی ماہانہ ترسیلات زر میں ایک یا ڈیڑھ ارب ڈالر کا مزید اضافہ باآسانی کر سکتے ہیں لیکن ہم تو اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے ’’گھتم گتھا ‘‘ ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی اقتدار کیلئے یہ جنگ اب شہروں، دیہاتوں اور گلی محلے تک پھیل چکی ہے اس دکھ بھری اور افسوسناک صورتحال کی اصلاح کی کوئی صورت سامنے نظر نہیں آتی۔ 
گزشتہ دنوں سابق وزیر خزانہ کے نگران سیٹ اپ میں آنے کی افواہیں  سننے کو ملیں   قارئین کو یاد ہو گا کہ معین قریشی اور شوکت عزیز بھی اچانک پاکستان آئے تھے اور حکمرانی کے مزے لوٹ کر اپنے اصل وطن یورپ لوٹ گئے۔ انہوں نے اس ملک کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں بُری طرح پھنسا دیا۔ پاکستانی عوام کو اس بات پر حیرات ہوتی ہے کہ اس وسیع و عریض ملک میں ذمہ دار حلقوں کو کوئی غیر جانبدار اور اچھے ساکھ کا بندہ نگران سیٹ اپ کے لیے نہیں ملتا ؟ کیا بطور نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی مرحوم ملک معراج خالد مرحوم کی کارکردگی مثالی نہیں تھی؟ کہتے  ہیں کہ اس متوقع نگران سیٹ اپ کیلئے ماہر معیشت ہی موزوں رہے گا۔ حالانکہ نگران سیٹ اپ صرف صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ ملک کے نظم و نسق کو چلانے کیلئے عبوری فیصلے کرتا ہے اور دیگر امور، پالیسیاں اور فیصلے آنے والی حکومت نے کرنے ہوتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور معیشت کو بحال کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس کوئی حقیقی پلان موجود ہی نہیں ہے دونوں اربوں روپے خرچ کر کے ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور عوام کو دبانے میںمصروف ہیں تباہ حال معیشت کے شکار اس ملک کی عدلیہ اور احتسابی اداروں کو دونوں کی شاہ خرچیوں کا حساب لینا چاہیے اس کے علاوہ ان پارٹیوں کی بدزمانی ، بدکلامی، بدگمانی، گھٹیا الزامات اور منافرت پھیلانے کے آگے بند باندھنا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے خاص کر نوجوان نسل کو اس گمراہی اور تباہی سے بچایا جا سکے۔ ان اداروں کا یہ بھی فرض ہے کہ ان بڑے بڑے جلسوں پر پابندی لگا کر ا س قوم کے اربوں روپے کو تباہ ہونے سے بچائے۔ الیکشن  کمشن کا بھی یہ آئینی فریضہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی اور نفرت کو ختم کرنے کیلئے ضابطہ اخلاق تیار کر ے۔ میڈیا کا یہ فرض ہے کہ وہ قوم میں انتشار پھیلانے اور نفرت بڑھانے والے سیاست دانوں کے بیانات کو پیش نہ کرے۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کی لگائی گئی اس آگ کے اوپر پانی اور مٹی نہ ڈالی گئی تو پھر سب سیاستدان اس کے جلائو بلکہ بھانبڑ کی زد میں آ کر جُھلس سکتے ہیں اور ان کی جمہوریت جمہوریت کی صدائیں کوئی نہ سنے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ سب  سیاسدان  قوم میں اتحاد پیدا کرنے ، انہیں غیر یقینی کی موجودہ صورتحال سے باہر نکالنے، معیشت کو بحال کرنے کیلئے ایک صفحہ  پر آ جائیں سیاسی لڑائیاں  گلی محلوں کی بجائے ٹیبل پر لڑی جائیں۔ ہمارے سیاستدانوں یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ یہ ملک شہدأ اور غازیوں کی  قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا اس آزادی کی قدر کیجئے اور ملک و قوم کی ترقی خوشحالی اور سالمیت کے تحفظ کیلئے سب ایک ہو جائیں اس میں ہی ہم سب کی بقا اور فلاح  ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن