پانی انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر زندگی کی بقا ناممکن ہے۔ پاکستان کو اپنے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک آبی وسائل کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ چار دہائیوں کے دوران یہ مسائل شدید تر ہوگئے ہیں لیکن اس دوران کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی۔ اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔اسی سلسلے میں بدھ کو قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ پانی ذخیرہ کرنے کا واحد راستہ ڈیموں کی تعمیر ہے۔ اگر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے 10 فیصد رقم بھی مختص کی جائے تو صورتحال بہتر ہو جائے گی اور اگر آئندہ پانچ سال میں ڈیم نہ بنائے گئے تو صورتحال سنگین ہو جائے گی۔ پاکستان کا شمار خشک سالی سے متاثر ہونے والے ان ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے زیراثر ہیں اور ان تبدیلیوں کے برے اثرات بھی تیزی سے نظر آنے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے آبی ماہرین گزشتہ کئی برس سے ہر حکومت کو شدومد کے ساتھ آنے والے آبی بحران سے آگاہ کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے ان کی وارننگ پر کان نہیں دھرے۔ کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی تیار ہونے کے باوجود اس کی تعمیر شروع نہ کی گئی اور ترقی کے ضامن اس منصوبے کو سیاست کی نذر کر دیا گیا جس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں کی مدد سے اس منصوبے پر قومیت کا نعرہ لگوا کر اس پر بھاری فنڈنگ شروع کر دی۔ اس نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب آنے والے دریائوں پر دو سو سے زائد چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کرلیے جو پاکستان کے خلاف اس کی کھلی آبی جارحیت ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم تو کجا، ہماری کسی حکومت نے دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی طرف بھی توجہ نہیں دی جس کے نتیجہ میں ملک آج بدترین آبی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ چولستان میں بلکتے عوام پانی کی کمیابی پر دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان حالات کی روشنی میں خورشید شاہ کی فکرمندی درست نظر آتی ہے کہ اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2030ء تک پانی کا بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت کو سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر آبی وسائل کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔ قومی بجٹ میں دس فیصد رقم مختص کرکے اس سنگین ہوتے بحران سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت کو کالاباغ ڈیم کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے جسے ہنگامی بنیادوں پر چند سال میں تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سنگین ہوتی صورتحال کے بعد ہمارے سیاست دانوں کو بہرصورت آبی وسائل کی تعمیر کے لیے یکجہتی کا مظاہر کرتے ہوئے سنجیدہ ہو جانا چاہیے ورنہ مستقبل قریب میں پانی کی قلت کی وجہ سے ہمارے ہاں دیگر زرعی اجناس کے ساتھ ساتھ خوراک کی بھی کمی واقع ہوگی جسے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ملک کو استحکام کی طرف لایا جاسکے۔