تحریر: محمد اصغر
ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
دانشور سیاستدانوں کے مربی (Mentor) ہوتے ہیں۔وہ سیاستدانوں گاہے بگاہے احساس دلاتے ہیں کہ معاشی ،سیاسی اور سماجی حرکیات (Dynamics)کو کس طرح اپنے خیالات اور بیانیے میں سمو دیں۔وہ سیاست دانوں کے بیانیہ کونظریات مقاصد اورروایات سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی چاروں صدارتی مدتوں کے دوران دانشوروں نے ہنگامہ خیز معاشی بحران سے نکالنے میں امریکی حکومت کی بہت مدد کی ا اور انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی تنظیموں کی بڑھتی تحریک کو بے اثر کرنے کے لیے امریکی صدر کوایک بیانیہ مرتب کرکے دیا۔ اگرچہ امریکی ریپبلکن پارٹی میں دانشورانہ سیاست کی مخالف جہت موجود تھی لیکن اس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم دانشوروں کے مقابلہ کے لیے اپنی جماعت میں کئی دانشوروں کو شامل کیا۔یورپ میں برطانیہ کی لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی نے بھی دانشوروں کو اپنے ساتھ رکھا۔ جرمنی اور اٹلی کی کچھ مطلق العنان حکومتوں نے بھی دانشوروں کی خدمات حاصل کیں۔ سوویت کمیونزم کی تشکیل میں بھی دانشوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ایڈولف ہٹلر کو جرمنی میں اْس دور کے چند بہترین ذہنوں کی خدمات حاصل تھیں، فلسفی کارل شمٹ اور مارٹن ہائیڈیگر، منطق دان روڈولف کارنیپ، اور بہت سے دوسرے دانشواروں نے ’نازی ازم‘ کو ایک ہمہ گیر نظریے میں ڈھالنے میں مدد دی۔
پاکستان میں آمرانہ اور جمہوری حکومتوں نے سیاسی ونظریاتی بیانیے اور معاشی ایجنڈا کی تشکیل کے لیے دانشوروں پر بہت زیادہ انحصار کیا۔جنرل ایوب خان کی آمریت (69-1958) میں ایسے دانشور شامل تھے جو اسلام کے مختلف پہلوؤں کو’’جدیدیت پسندتشریحات ‘‘فراہم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔بانی جماعت اسلامی پاکستان سیّد ابولا علیٰ مودودی ? کے اسلامی نظریہ حیات ،اسلامی ریاست اور حکومتِ الہیہ کے نظریہ کے خلاف عقلیت پسند دانشوروں فضل الرحمان ملک اور غلام احمد پرویز سمیت کئی فرقہ پرست گروہوں کو ایوب حکومت نے خوب استعمال کیاگیا۔ایوب حکومت کو دوام بخشنے کے لئے ترقی پسند ناول نگار ممتاز مفتی ،جسٹس جاوید اقبال ،الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے وقت سیاسی اورمعاشی نظریات کے حامل دانشوروں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت (77-1971) کے دوران سرگرم رہے۔ ایک مارکسی تھیوریسٹ جے اے رحیم نے پاکستان پیپلز پارٹی کا فاؤنڈیشن پیپراور اس کا پہلا انتخابی منشور لکھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن پی پی پی کے معاشی منصوبہ سازتھے۔ انہوں نے بھٹو دور میں وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ دیگر دانشوروں میں حنیف رامے اور صفدر میر نے اسلام پسندنظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے مقالے لکھے۔حنیف رامے نے پارٹی کا بنیادی نظریہ ’اسلامی سوشلزم‘وضع کیا۔ قانون دان اور آئینی ماہر عبدالحفیظ پیرزادہ 1973 کے آئین کے اہم مصنفین میں سے ایک تھے جبکہ مولانا کوثر نیازی کی شخصیت مذہبی پیشکش کے لئے کافی تھی۔’’طاقت کا سرچشم عوام ہیں‘‘، ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘اور ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘کا نعرہ لگا کر بھٹونیبیک وقت لبرل، اشتراکی اور روایتی مذہبی ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
جنرل ضیائ الحق کو ممتاز دانشور اور ماہراقتصادیات محبوب الحق اور قانون دان شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل تھیں۔اْنہوں نیجنرل ضیائ الحق کیمارشل لائ میں ججوں کے لیے ایساحلف تیار کیاجس میں آئین کے تحفظ کے عزم کو نظر انداز کیا گیا۔جنرل ضیائ الحق کے دورِاقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اْس زمانے کے دانشور،مذہبی پیشوا اورمشائخ بھی پیش پیش تھے۔ اْن کے دورِ اقتدارمیں ’’سروسز بْک کلب‘‘ سرکاری افسران کو دوسری کتب کے ساتھ ساتھ معارف القرآن ، تفھیم القرآن اور دوسرااسلامی لٹریچر معمولی سبسکرپشن پر فراہم کرتا رہا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار (2008-1999) میں دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ میں متبادل مذہبی بیانیہ متعارف کروانے کے لئے بالواسطہ جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر رفعت حسن جیسیکئی دانشواروں کی خدمات حاصل کیں دوران ِاقتدارجنرل پرویز مشرف کو لبرل اور لادین دانشوروں نے بھی اپنی حمایت سے خوب نوازا۔
21 ویں صدی میں اکثر سیاسی جماعتوں اور جمہوری حکومتوں میں دانشوروں کی موجودگی کے خلاف شدیدردعمل دیکھا گیا۔ سیاسی گروہوں میں دانشور مخالف سوچ پنپ گئی۔ چنانچہ بہت سے ممالک میں مقبول سیاست (Popular Politics) کو عروج ملا۔
’’پاپولزم‘‘ فطری طور پر دانشور مخالف ہے۔ اْس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی جب مقبولیت فرقہ(Cult) میں تبدیل ہو جائے۔ اگرچہ یورپ اور امریکہ میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماتیں آج بھی دانشوروں کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں دانشوروں کا کردار کم ہو گیا۔دانش مندانہ سیاست کی جگہ پاپولر سیاست نے لے لی۔ اس دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا (فیس بْک، ٹویٹر ،واٹس ایپ اور انسٹاگرام) نیلوگوں کے دل و دماغ کومسخر کیا۔ وہ ٹیکنالوجی کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔اس عوامی رجحان کو پاپولر سیاست کی ترویج کے لئیاحمد شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اور فیض حمید نے بھرپور استعمال کیا۔ اْنہوں نیسیاسی اور جمہوری رویات کومَسل کر ’سب چورہیں‘ کا ایک پاپولر بیانیہ بنایا ، اْس میں روح پھونکی اورایک منظم ’’سوشل میڈیا فورس ‘‘بنائی۔اْس کی ایسی تربیت اور استعمال کیا کہ جس کاتوڑ کرنیکے لئے بڑی سیاسی جماعتیں استعداد نہیں رکھتی تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں کبھی بھی دانشوروں کی جگہ نہ تھی۔ اس میں زیادہ تر کرکٹ کے دیوانے اور دیوانیاں تھیں جو ایک سلیبرٹی کی مسحور کن شخصیت کی اسیر تھیں۔بعد میں مقتدر قوتوں نے پوری ریاستی مشینری اور وسائل کا ستعمال کرکیسیاسی مفاد پرستوں (یعنی الیکٹیبلز) کو پکڑ پکڑ کر اس میں داخل کیا۔ نوجوان اینکرز، یوٹیوبرز، بلاگرز اور کی بورڈ جنگجوؤں کو دلیل کی بجائے جذبات بھڑکانے پر لگا دیا۔’’نیا پاکستان‘‘،’’ دو نہیں ایک پاکستان‘‘ ، ’’تبدیلی ‘‘اور ’’مدینہ کی اسلامی ریاست ‘‘بنانے کے وعدے پر وفاق کے ساتھ دو صوبوں کی حکومت دے دی۔ لیکن جب سنگین معاشی اور داخلی بحرانوں میں حالات نے پلٹا کھایا اور سلیکٹرزاور کپتان کی راہیں جْدا ہو گئیں تو مقبولیت اپنے جامہ سے باہر آگئی۔ سارے بیاینے اْلٹ گئے۔ ’’ایک صفحہ‘‘ پھٹ کیا۔ 9 مئی 2023ئ کا سانحہ ظہور پذیر ہوا جس نے پوریملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کر دیا ادریوں پاپولر سیاست اپنی موت آپ مر گئی۔ بقول شاعر : اپنے ہاتھوں سے جلا کر اپنا ہی گھر دیکھنا، زندگی بھر کی کمائی کولْٹا کر دیکھنا۔
کپتان کا کہنا ہے اْسے کچھ پتا نہیں کہ باہر کیا ہوا۔ امریکی دانشوار ڈیوڈ گراہم کہتے ہیں کہ’’یہ سمارٹ سیاستدانوں کا دور ہے جو احمق ہونے کا بہانہ کرتے ہیں‘‘۔سمارٹ سیاستدان کی ادائیں ووٹرں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں مگر حکمت اور دانش کی کمی اْسے تباہ کر دیتی ہیں۔ دانشمندلوگ پاپولر سیاست اور پاپولر لیڈر کی احمقانہ حرکتوں سے قوم کوبچا تے ہیں۔سو ہمیں پولر سیاست کے اِس انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں، عدلیہ ، مقننہ ، حکومت اور مقتدرہ کو پاکستان کو اسلامی جمہوری اور خوشحال ریاست کے لئیعلم،حکمت اوردانش کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور اس کا نقطہ آغاز منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا جلد از جلد انعقادہے۔