’’کاغان ہاوس کا چراغ‘‘

عکسِ خیال…محمد حفیظ
mh_mughal13hotmail.com
 یونانی کہاوت ہے’’ چہرے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں ‘‘اسی طرح بسا اوقات  نام بھی  شخصیت اور  کردار کا آئینہ دار کہلاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے حسب نسب کے ساتھ ساتھ زندگی میں اپنے نام کی لاج رکھنا بھی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ اور اگر کوئی سادات فیملی سے ہو اور اس کے نام کے ساتھ شہید کا لاحقہ بھی ہو تو ایسی شخصیات کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے نام کو زندہ رکھیں۔ اپنے پرکھوں کی عظیم روایات کو پوری شد و مد کے ساتھ جاری و ساری رکھتے ہوئے  مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہوئے  فانی زندگی کو لافانیت کا درجہ دے سکیں۔ یقینا انسان کے اعمال ہی ہوتے ہیں جو کسی کو فانی یا لافانی بناتے ہیں اور ایسے امور جن کا تعلق نسل در نسل چلتا رہے جن کا پھل ایک انسان کی نسل نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق تک پہنچتا  ہو ایسے انسان آج کے دور میں ہمارے درمیاں بہت کم تعداد میں پائی جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں جہاں مجھے دنیا دار بلکہ دنیا پرست قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا وہاں اللہ کے کچھ ایسے نیک بندوں کی محافل بھی میری زندگی کا حصہ رہی ہیں جن سے میں نے بنفس نفیس نہ صرف بہت کچھ سیکھا بلکہ ان کے خیالات کو دوسروں تک پہچنانا اپنا فرض عین بھی سمجھتا رہا۔
"سید حسین شہید "  نام ذہن میں آتے ہی انسانی تاریخ میں ایثار کی وہ لازوال داستان آنکھوں کے سامنے ایسے گھوم جاتی ہے جیسے  یہ سانحہ ابھی کل ہی رونما ہوا ہو۔ یقین جانیں جب یہ نام میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میری نظریں ایک ایک لفظ پر مرکوز ہو کے  جھک جاتی ہیں۔ کتنا عظیم نام ہے۔ کتنی بابرکت ہستی ہے جس نے ہم مسلمانوں کو جینے کا درس دیا۔ جس نے ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کر کے اہلِ ایمان کا سر تا قیامت  بلند کردیا۔ لیکن میں یہاں جس ہستی کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ میرے نہایت ہی محسن اور شفیق قسم کے قدر دان اور مہربان ہیس جو انگلینڈ کے شہر لوٹن میں عرصہ بیس سال سے مقیم ہیں مگر اتنے عرصہ میں قدرت نے ایسا موقع عنایت نہ کیا تھا کہ ان سے ملاقات ہوتی۔ لیکن جب سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ کہ واقعی "جناب ایڈووکیٹ  سید حسین شہید " کا تعلق اسی عظیم خاندان سے ہے جس نے ہم مسلمانوں کو  اللہ کے بتا? ہو? دین پر چلنے کا درسِ عظیم دیا۔ 
محترم سید حسین شہید صاحب کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے وہ ایک علم شناس, ادب شناس، کتب شناس، احسان پرور، مرقع حسن و اخلاص، پیار و شفقت کا پیکر، جانثارانِ یاراں، عاجزی کی بہترین مثال ہیں۔  شاہ صاحب کا حلقہ یاراں دیکھ کر احساس ہو جاتا ہے کہ انکے دل میں اللہ کی مخلوق کے لئے کس قدر درد پایا جاتا ہے۔ کوئی واقف کار یا اجنبی، اپنا ہے یا پرایا جس نے جب بھی کوئی درخواست شاہ صاحب سے کی اٹھ کے اس کے ساتھ ہو لئے اور حسبِ توفیق اس کے علاوہ بھی جو خدمت ہوتی ہے بغیر پوچھے کرتے رہتے ہیں۔
شاہ صاحب کے حلقہ احباب میں سیاسی، سماجی،  تعلیم اور صحافتی میدان میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جن سے ملاقات  مجھ ایسے بہت سے ادنیٰ انسانوں کا خواب ہی رہ جاتا ہے۔ محترمہ سے لے کے دوسری تمام بڑی شخصیات کا ان کے دولت کدے کاغان ہاوس پر آنا جانا رہتا ہے۔ آج جب باتوں باتوں میں ایک نہایت معتبر ادبی اور صحافتی شخصیت کی بات چلی تو انہوں نے اسی وقت فون ملا کر ان سے میرا تعارف بھی کچھ ایسے انداز میں کرایا جس کا میں بے شک اہل نہیں تھا مگر یہ ان کا بڑا پن ہے جو دوسروں کو سر کا تاج بنا لیتے ہیں۔ کچھ دن قبل شاہ صاحب جب میرے آفس تشریف لائے تو ان کے ساتھ ان کے دیرینہ ساتھی انہی کی طرح نہایت شفیق اور پیار کرنے والے سید نبی شاہ چیرمین تعلیمی بورڈ سوات ان کے ہمراہ تھے۔ کافی دیر تک  شاہ صاحب سے ادھر ادھر کے علاوہ پاکستان کی صورتِ حال کے علاوہ دیگر امور پر سیر حاصل تبصرہ ہوتا رہا۔ جناب سید نبی شاہ صاحب کی محفل میں جو وقت گزرا وہ برسوں یاد رہے۔ کہتے ہیں ناں ایک دودھ اور اوپر اس میں میٹھا ملا دو تو شیرینی دگنی ہو جاتی ہے آج بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیش آئی ایک شاہ صاحب نہیں بلکہ دو ایسی شخصیات جن کی صحبت کی لوگ حسرت ہی کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو دنیا و جہان کی دولت سے مالا مال کرنے کے ساتھ ان کو دینِ اسلام کی دولت بھی نصیب کرے۔ اور اللہ کرے وہ  صدیوں تک کاغان ہاوس کی رونق بنے رہیں آمین …آخر میں ٹیکسلا واہ کے شاعر رانا سلیم دوشی کا شعر شاہ صاحب کی نذر
پیار ہوجائے تو خیرات بھی لے دیتے ہیں 
یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں 

ای پیپر دی نیشن