پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں سب سے دلچسپ خبر سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون بند کیے بیٹھے ہیں اور کہیں پہاڑوں میں وقت گذار رہے ہیں۔ چونکہ وہ لگ بھگ ساڑھے تین سال تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہے ان پر مختلف حوالوں سے تنقید بھی رہی، بعض مقدمات میں عدالتوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ نو مئی کے دلخراش واقعات کے بعد جس تیزی سے وکٹیں گر رہی ہیں ایسے حالات میں ان کی پریس کانفرنس کا بھی انتظار ہو رہا ہے لیکن سردار عثمان بزدار نے فی الحال پہاڑوں میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ پریس کانفرنس کرنے سے پہلے طویل غور و خوض اور قید تنہائی سے پہلے تنہائی میں سوچ بچار کرنا چاہتے ہوں، کال کوٹھڑی سے پہلے کالے پہاڑوں میں رہنے کا تجربہ کرتے ہوئے خود کو آنے والے مشکل وقت کے لیے بھی تیار کر رہے ہوں۔ چونکہ بڑا مقابلہ آنے کو ہے اور وہ سخت پریکٹس کے لیے پہاڑوں کو نکل گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہیں سردار صاحب پہاڑوں سے ہی پاکستان تحریک انصاف، سیاست اور ہر کسی سے اعلان لاتعلقی نہ کر دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دنیا سے بھی الگ ہونے کا اعلان کریں اور وہیں سے کسی پیر صاحب کی شاگردی اختیار کرنے زندگی گذارنے کا مقصد بدلنے کا ہی اعلان نہ کر دیں۔ ویسے تو ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ حالات ہی ایسے ہیں کہ اچھا بھلا بندہ بھی یہ اعلان کر سکتا ہے کہ اس کا سیاست ہی کیا سیاست دانوں سے بھی دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال عثمان بزدار کو اپنے دور حکومت کے حوالے سے ہر قسم کے الزامات کا ناصرف سامنا کرنا چاہیے بلکہ تمام الزامات کا جواب دیتے ہوئے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ملک کے سیاسی حالات میں خاصا تناو اور شدت محسوس کی جا رہی ہے گوکہ اب احتجاجی سیاست کا امکان ذرا کم ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا شیرازہ بکھر رہا ہے، وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح گر رہی ہیں، جان دینے کے نعرے لگانے والوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ہر وقت اداروں کو برا بھلا کہنے کی پالیسی پی ٹی آئی کو وہاں لے آئی ہے کہ واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ان حالات کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ انہوں نے اصلاح کرنے کے بجائے غیر ضروری طور پر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور نفرت کی آگ میں جلتے جلتے ناصرف خود جلے ہیں بلکہ ملک کو آگ لگانے کے سنگین جرم کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ اب روتے رہیں کہ انٹرنیٹ کاٹ دیا گیا ہے، نہ کارکنوں سے ملنے کی اجازت ہے، نہ جماعت کی قیادت سے ملاقات ہو رہی ہے۔ اب رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔آگ لگانے کا کھیل شروع کیا جائے تو خود اس آگ سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ کیا ملا انہیں دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچا کر، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کون سی سیاست ہے۔ امن و امان اور ہماری آزادی کا دفاع کرنے کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی بے حرمتی تو پہلے زخم دینا اور پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہماری یادداشت ذرا کمزور ہے ورنہ یہ یاد رکھنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد میں ناکامی سے کچھ پہلے اور اس کے بعد بالخصوص دفاعی اداروں کو نشانے پر لیا اور شہداء کے حوالے سے تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے وقت بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا۔ وہ وقت بھی پی ٹی آئی کو واپس لانے کے لیے ایک جھٹکا تھا لیکن عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے واپس آنے کے بجائے آگے بڑھنے اور حملوں میں شدت کا راستہ اختیار کیا اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اب ان حالات میں کیا حکومت کی صرف یہی ذمہ داری ہے کہ وہ دفاعی اداروں، ریاستی اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی رہے اور قیمتی وقت گذرتا چلا جائے یقینا ایسا نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ملک میں آگ لگانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے تو زندہ لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ملک کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ جس طرح توانائی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صنعتوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی گاڑی چلنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کو گیس اور تیل کے معاملے میں ملکی مفادات و ضروریات کے پیش نظر سمجھداری کے ساتھ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ شر پسندوں کی گرفتاریوں کے ساتھ مہنگائی کو قید اور عام آدمی کو مشکلات سے آزاد کروانا پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ ایران سے گیس کا معاملے کو حل ہونا چاہیے اور اگر پاکستان وہاں سے گیس لیتا ہے تو پھر دنیا کو اس پر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں بسنے والے چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کا حق ہے کہ انہیں بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ ان کے لیے اشیاء خوردونوش سستے داموں مل سکیں، انہیں سستی گیس، بجلی، پیٹرول اور ادویات مل سکیں ۔ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر بھارت روس اور یوکرین جنگ کے باوجود اور روس کے عالمی بائیکاٹ کے باوجود تجارت کر سکتا ہے تو پھر پاکستان کو بھی ایران اور روس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کہتے ہیں کہ روس سے سستا خام تیل آرہا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک سے تجارت بڑھانے جارہا ہے، پاکستان روس اور سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے ہے، پاکستان راہداری ہے اور خود بہت اہم ہے، کوشش ہے وسط ایشیا ممالک سے دوستی مزید بڑھائیں، ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی ون کوریڈور بنانا ہے روس سے سستا خام تیل آرہا ہے، ہم پر روس سے تیل خریدنے پر کوئی دباؤ نہیں، امریکہ کو روسی تیل کی خریداری پر اعتراض نہیں، کم قیمت روسی تیل سے عوام کو فائدہ ہوگا، خلیجی ریاست سے دو پیٹرول کے جہاز خریدنے کے لیے معاہدہ کریں گے جب کہ ایران سے گیس خریدناچاہتے ہیں لیکن پاکستان پر پابندی بھی نہیں چاہتے۔
یاد رہے ایران اور پاکستان کی سرحد پر تین نئی تجارتی منڈیاں بھی کھولی جا رہی ہیں مند کے مقام پر پاک ایران تجارتی منڈی کھول دی گئی ہے جبکہ دو منڈیوں کا کام ترجیحی بنیادوں پر جاری ہے۔ پاکستان کو ایران سے گیس اور سولر انرجی کے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات کے علاوہ اس خطے کے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ امریکہ بہادر کو پاکستان میں انسانی حقوق کا بہت درد ہے کیا پاکستان میں پیدا ہونے والے یر بچے کا حق نہیں کہ اسے زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں، کیا پاکستان کے ہر طالب علم کا حق نہیں ہے کہ اسے گرمیوں میں بلاتعطل بجلی اور سردیوں میں گیس میسر ہو، کیا پاکستان کے ہر شہری کا حق نہیں کہ اس کا طرز زندگی بلند ہو، کم آمدن والے افراد کے لیے کم از کم تین سو یونٹ تک بجلی مفت ہو۔ حکومت اگر یہ چاہتی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی تنائو کو کم کر کے نوجوانوں کو تعمیری کاموں کی طرف لانا چاہتی ہے تو اسے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور تجارت کے معاملے میں امریکی مفادات کے بجائے عوامی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔
آخر میں منیر نیازی کا کلام
کج شوق سی یار فقیری دا
کچ عشق نے در در رول دتا
کج ساجن کسر نہ چھوڑی سی
کج زہر رقیباں گھول دتا
کج ہجر فراق دا رنگ چڑھیا
کج درد ماہی انمول دتا
کج سڑ گئی قسمت بد قسمت دی
کج پیار وچ جدائی رول دتا
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غماں دا طوق وی سی
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی