ترقی کے بنتے بگڑتے زینے

May 27, 2023

سلیمان کھوکھر-----چہرے

گزشتہ دنوں ایک مارکیٹ میں جاناہوا۔ اس کے حدوداربعہ پر غورکیا تو ذہن میں آگیا کہ یہاں کبھی ’کریسنٹ اینڈ سٹار‘ کے نام سے ایک بہت بڑی انڈسٹری تھی جس کا شمار پاکستان کی نمبرون شوگر مل مشینری میں ہوتا تھا، یعنی یہاں شوگر مل لگانے سے متعلقہ تمام پرزہ جات ،انفراسٹرکچر اور اعلیٰ قسم کے کاریگر موجود ہوتے تھے ۔ اس کے مالک میاں محمد شفیع ایک صاحب علم اور ادبی ذوق کے آدمی تھے۔ ان کی فیکٹری میں ایک صاحب مرزا کریم شوگر مل کے چند پرزے نوشہرہ روڈ پر واقع اپنی ایک چھوٹی سی دکان پر خراد مشین پر بناکر کریسنٹ اینڈ سٹار کوسپلائی کرتے تھے ۔ میاں شفیع کچھ گھریلو الجھنوں میں الجھ گئے اور کچھ وہ یورک ایسڈ کے بھی پرانے مریض ہونے کے سبب بھی اپنی انڈسٹری کو مطلوبہ وقت نہ دے سکے۔ اگرچہ وہ خود کبھی چیف انجینئر رہے تھے مگر جب قویٰ مضمحل ہوجائیں توبہت سی تدبیریں روٹھ جاتی ہیں ۔یوں دھیرے دھیرے کریسنٹ اینڈ سٹارکا ’چاندتارا‘ ماند پڑنے لگا۔
ادھر، مرزا کریم مناسب حد تک خواندہ نہ ہونے کے باوجودصاحب نظر آدمی تھے۔ کسی مشینری کو ایک بار دیکھ لیتے تو چند لمحوں بعد وہی مشینری ان کے ذہن میں بن جاتی۔ ملک بھر میں جہاں کہیںبھی شوگر ملیں موجودتھیں، کسی نقص کاازالہ کرنے انھیں میاں شفیع وہاں بھیج دیتے۔ اس طرح ان کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔ جونہی کریسنٹ اینڈسٹار انڈسٹری پر زوال کے سائے چھانا شروع ہوئے، دوسری طرف مرزا کریم نے ’سٹارمغل انڈسٹری‘ کے نام سے جی ٹی روڈپر ہی شوگر ملز سے متعلقہ انڈسٹری کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں سٹارمغل کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتاگیا۔ مرزاصاحب اوران کی فرمانبردار اولاد نے اسے عروج تک پہنچا دیا۔ پھر معلوم ہواکہ اس خاندان میں اتفاق کی برکت اٹھتی جارہی ہے ۔ یہ بات درست ثابت ہوئی جب ادھر ادھر سے خبریں سننے کے علاوہ خود اس انڈسٹری کی دیواروں کی شکستگی اس امر کی گواہی دینے لگی ۔
جی ٹی روڈ پر ایک ’انورانڈسٹری‘ تھی جس کا بنا ہواپنکھا ’ایشیافینـ‘ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ پنکھوں کے علاوہ یہاں غسل خانوں کی ٹونٹیاںوغیرہ بھی بنائی جاتی تھیں۔ مینو فیکچرنگ بڑھتی گئی اتنی کے پاکستان سے باہر بھی اس کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ سنا ہے خانہ کعبہ تک اس انڈسٹری کے پنکھے عطیہ ہوئے جو اس سے پہلے لاہور کے شیخ محمد دین کی انڈسٹری بھی فراہم کرتی رہی۔ انورانڈسٹری کاحجم بڑھتا گیا اوروسائل میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔ پھر وہی منحوس کہانی شروع ہوئی کہ ایک دروازے سے دولت آئی اوردوسرے سے قناعت رخصت ہوئی۔ بے اتفاقی نے گھر میں ڈیرے جما لیے اور انور انڈسٹری کا خاتمہ ہوگیا (صد افسوس) ۔
یہاں تک تو آپ نے مختلف انڈسٹریز کا پڑھ لیامگر جی ٹی روڈ پر ہی واقع شہر کی سب سے بڑی انڈسٹری ’کلائمیکس‘کے بغیرگوجرانوالہ کی اپنی تاریخ ادھوری رہے گی۔ انڈسٹری کیا تھی ایک پوراادارہ تھا شہر بھر کی گھریلو انڈسٹری کاسامان یہاں کھپ جاتا تھا۔ اس کے سامنے مالکان کی پروقارکوٹھیاں اوربنگلے دیکھنے والوں کومتاثر کرتے۔ اس خاندان کاکوئی فردسڑک پر نکلتا تولوگ انگلیوں سے اشارہ کرکے بتاتے کہ وہ دیکھوکلائمیکس والوں کالڑکا یادیگر کوئی فردجارہا ہے۔ ان کے ساختہ ’کلائمیکس فین‘ بھی کوالٹی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کابھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ تو اتنے عام نہیں تھے، لوگ بڑے فخر سے بتاتے کہ ان کے گھر میں کلائمیکس کاپنکھا لگاہوا ہے۔ یہاں سے بجلی کے ٹرانسفارمر پورے ملک میں واپڈاکوسپلائی جاتے تھے۔ بعد میں یکے از مالکان خورشید صاحب کے وقت میں ایئر کنڈیشنڈ بھی بننا شروع ہوگئے تو اس خاندان پر جوہن کئی دہائیوں سے برس رہا تھا اب تو گویابارش موسلادھار شروع ہوگئی۔
ایک اندازے کے مطابق، 700سے زائد افراد کلائمیکس کام کرتے تھے اوراگر شہر کے چھوٹے سپلائی کنندگان کو بھی شامل کرلیاجائے جوچھوٹے چھوٹے پرزے وغیرہ گھر میں بناکرسپلائی کرتے تھے تودس ہزار کے لگ بھگ خاندان ہوں گے جن کے چولھے کلائمیکس کی وجود سے چل رہے تھے۔ اس سے آگے کی کہانی مجھے معلوم نہیں ، نہ میں زیادہ گہرائی میں جانا چاہتا ہوں۔ بس اتنا بتاتا چلوں کہ گوجرانوالہ کے کھوکھروں نے گوجرانوالہ کو اتنا بڑا صنعتی شہر بنادیا کہ ایک وقت میں دنیاکے کئی ممالک کے ماہرین ان کی ترقی اورمینو فیکچر نگ کاماڈل دیکھنے آیا کرتے تھے۔ لاکھوں خاندان تھے جن کے چولھے ان کارخانوں کی وجہ سے چل رہے تھے ۔(جاری)

مزیدخبریں