معزز قارئین ! مَیں اکثر اپنے کالموں میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب کے سلسلے میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان (صدر پاکستان مسلم لیگ کنونشن) کے مقابل متحدہ اپوزیشن کی امیدوار قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا تذکرہ کرتا ہْوں، جنہیں ’’مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ’’مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ صدارتی انتخاب کی انتخابی مہم سے کچھ دِن پہلے میری اور میرے سرگودھوی صحافی دوست تاج اْلدّین حقیقت کی لاہور میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات ہْوئی، اْسی وقت تحریک پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان لاہور کے مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور بھی موجود تھے۔ اْن دونوں سے میری دوستی ہوگئی اور اْن کے بیٹوں (موجودہ چیئرمین پیمرا ، مرزا محمد سلیم بیگ ) اور ( ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رْکن سعید آسی) سے بھی۔ مجھے اکثر ہِندی کے نامور شاعر گوسوامی تْلسی داس کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ …
’’ تْلسی بانہہ سپوت کی، بھْولے سے چھْو جائے!
آپ نِبھاوے عْمر بھر بیٹے سے ،کہہ جائے! ‘‘
…O…
یعنی ’’ اے تْلسی اگر کسی معزز شخص کا بازو کسی دوسرے شخص سے چْھو جائے تو وہ تاحیات اْس سے دوستی نباہتا ہے اور مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو بھی، (اْس شخص سے) دوستی نباہنے کی وصیت کر جاتا ہے !‘‘۔
تحریک پاکستان کے دَوران امرتسر میں مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہْوا شہید ہوگیا تھا اور تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میاں محمد اکرم طور نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔ معزز قارئین! ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے ایک ترانہ ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر ہو رہا تھا۔
مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری مجھے مبارک باد دینے کے لئے اپنے دو لاہوری دوستوں کو ساتھ لے کر میرے گھر سرگودھا آ گئے۔ اْنہوں نے مجھ سے بھرپور جپھّی ڈالی پھر اْن کے دوستوں نے بھی۔3 دسمبر 1992ء کو لاہور میں میری والدہ محترمہ کی پہلی برسی تھی۔ اْسی روز میرے روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں ’’ماں‘‘ کے نام سے میری نظم شائع ہْوئی تھی۔ نظم کے دو شعر یوں ہیں …
’’اب کہاں صبر و سکْوں، تاب و تَواں، تیرے بعد!
بسکہ دْشوار ہْوا، کارِ جہاں، تیرے بعد!
…O…
تیری صِفتیں تھیں، خْدا جیسی، خْدا جانتا ہے!
کوئی دیکھا نہیں ، یکتائے زَماں ، تیرے بعد!
…O…
مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور اْن کی اہلیہ محترمہ بھابھی/ بہن اصغری بیگم بھی فاتحہ خوانی کے لئے میرے گھر تشریف لائیں۔ اصغری بیگم صاحبہ کے والد صاحب لاہور کے بزنس مین مرزا شہاب اْلدّین بیگ بہت ہی مخیر اِنسان تھے۔
اْن کے وسائل اور پھر اپنے شوہر مرزا شجاع اْلدّین بیگ کے وسائل سے اصغری بیگم صاحبہ غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور اْنکی شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین حاصل کِیا کرتی تھیں اور جب 6 مئی 2002ء کو مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری خالقِ حقیقی سے جا ملے تو پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور اْن کے چار بھائیوں مرزا ظفر بیگ، مرزا مظہر بیگ، مرزا حامد بیگ اور مرزا خالد بیگ نے اپنی والدہ محترمہ، اصغری بیگم سے دل و جان سے تعاون کِیا اور اْن کی بہن فرح بیگ صاحبہ نے بھی۔
معزز قارئین! ایک ملاقات میں مجھے میری بھابھی/ بہن اصغری بیگم نے کہا کہ ’’بھائی اثر چوہان! پنجتن پاک کی شفقت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ بیٹے عطا فرمائے ہیں تو مَیں نے کہا کہ ’’بہن جی! آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں‘‘۔
معزز قارئین! 28 مئی 2020ء کو مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ محترمہ بہن اصغری بیگم کا انتقال ہْوا تو مَیں نے 3 جون 2020ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا کہ …
’’موت ہے ہنگامہ آرا، قْلزم ِ خاموش میں!
ڈْوب جاتے ہیں سفینے، موج کی آغوش میں!‘‘
… O…
’’2 جنوری 1965ء کے بعد ! ‘‘
محترمہ اصغری بیگم نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ’’مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھرپور حصّہ لِیا تھا لیکن، اْس کے بعد کبھی سیاست میں حصّہ نہیں لِیا البتہ وہ قومی اخبارات میں تصویریں اور خبریں چھپوائے بغیر تاحیات غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی شادیوں کا اہتمام کرتی رہیں۔
2 جولائی 2020ء کو محترمہ اصغری بیگم کے ’’فاتحہ چہلم‘‘ کی تقریب میں پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے مجھے بتایا کہ ’’28 مئی 2020ء کو میری والدہ صا حبہ کی وفات کے بعد بہت سی خواتین میری میرے بھائیوں کی بیویوں اور میری بہن اور اْس کی سسرالی خواتین کو بتارہی تھیں کہ ’’مرزا شجاع اْلدّین بیگ کی اہلیہ محترمہ اصغری بیگم ہمارے لئے ’’ماں سی‘‘ (ماں جیسی ) تھیں‘‘۔
معزز قارئین! مَیں گذشتہ 23 سال سے مرزا محمد سلیم بیگ کی اہلیہ ( راجپوت برادری کی بیٹی، میری بھی بیٹی ) بیگم طاہرہ سلیم بیگ کو دیکھ رہا ہْوں، وہ اپنے تینوں بیٹوں، موسیٰ سلیم بیگ، سلیمان سلیم بیگ، خضر سلیم بیگ اور بیٹی عنایہ سلیم بیگ کی حقیقی ماں کے فرائض تو بڑی خوبی سے انجام دے رہی ہیں لیکن اپنی مرحومہ ساس (اصغری بیگم صاحبہ) کے نقشِ قدم پر چلتے ہْوئے غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی‘ تعلیم و تربیت اور شادیوں کا بندوبست کر کے بھی ثوابِ دارین حاصل کر رہی ہیں۔ مَیں سوچتا رہتا ہوں کہ ’’جنت مکانی‘‘ مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری اور اْن کی اہلیہ اصغری بیگم کی رْوحوں کو کتنا سکون مل رہا ہوگا؟‘‘۔
’’رازِ اخوت کی محافظ …!‘‘
معزز قارئین! کل محترمہ اصغری بیگم کی پہلی برسی تھی، علاّمہ اقبال نے اِس طرح کی مسلمان مائوں اور اْن کے فرزندوں کے حوالے سے بہت پہلے کہا تھا کہ …
’’ما لِ اْو، فرزند ہائے، تندرست!
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چْست !
…O…
حافظِ رمزِ اخوت مادراں!
قوت ِ قرآن و مِلّت مادراں!‘‘
…O…
یعنی-1 ’’(مسلمان ) قوم کی دولت اْس کے تندرست بیٹے جن کے دماغ روشن ہوں اور وہ محنتی اور چاق و چوبند ہوں‘‘۔
-2 ’’اخوت (بھائی چارے) کے راز کی حفاظت مائیں کرتی ہیں۔ مائیں ہی قرآن اور مِلّت کے لئے باعث ِ قوت ہیں ‘‘۔
٭…٭…٭