برطانیہ میں ٹیپو سلطان کی تاریخی تلوار کو نیلامی کیلئے پیش کیا گیا جو 14 ملین پاونڈز ( پاکستانی 4 ارب 93 کروڑ اور 90 لاکھ روپے)میں فروخت ہوئی۔
جنگ آزادی کے ہیرو، مزاحمت و بہادری کا استعارہ اور میسور کے ٹائیگر کے نام سے مشہور ٹیپو سلطان کی تلوار فنِ ثقافت اور اسلحہ سازی کی مہارت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔یہ تلوار 18 ویں صدی میں میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے نجی کوارٹر سے ملی تھی۔ ٹیپو سلطان کو دھوکے سے انکے چند ساتھیوں نے غداری کرتے ہوئے قتل کرانے میں برطانوی فوج کی مدد کی تھی۔ٹیپو سلطان جب شہید ہوئے تو انگریز خوف سے انکی لاش کے قریب نہیں جا پا رہے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس دن انکی شہادت ہوئی‘ اس دن آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہونے لگے۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا اور بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کررہے تھے۔ اس وقت غلام علی لنگڑا‘ میر صادق اور دیوان پورنیا جیسے غداران وطن دل میں خوف چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام انڈیل رہے تھے اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی جبکہ شہید سلطان کے چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی۔ میرجعفر اور میر صادق کو دنیا اب بھی غدار کے نام سے یاد کرتی ہے جبکہ سلطان کی بہادری کے ڈنکے آج بھی دنیا میں بج رہے ہیں۔ شیر کی ایک دن کی زندگی‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ قول اسی ٹیپو سلطان کا ہے جس نے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ حیرت ہے کہ ٹیپو سلطان سے اس قدر خوف کھانے والے انگریز نے آج بھی اس بہادر سپہ سالار کی تلوار اپنے پاس رکھی ہوئی ہے جسے اب نیلام کیا گیا ہے۔ آج بھی انگریزوں پر ٹیپو سلطان جیسے غیور اور بہادر حکمرانوں کا ہی خوف ہے۔ اسی لئے آج مسلمانوں کیخلاف الحادی قوتیں یکجا ہیں۔ انگریز کے وفادار آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں‘ جن کے ذریعے انہوں نے آج بھی مسلمانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نہ جانے ان وفاداروں کو سلطان کا یہ قول کب سمجھ میں آئیگا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی ‘گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ فی الحال تو دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔
٭…٭…٭
خواجہ سراایکٹیوسٹ شہزادی رائے نے کراچی میونسپل کارپوریشن کی نشست کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ خواجہ سرانے خود کو راہ راست پر پر لا کر معاشرے میں عزت کے ساتھ جینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں یقیناً سرکاری معاونت بھی شامل ہے‘ اسی لئے تو شہزادی رائے کو کراچی میونسپل کارپوریشن کی رکنیت کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے اسے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔ بہت سے ملکوں میں خواجہ سرا معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور کئی میدانوں میں عام لوگوں کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔ مگر اپنی فنکاریاں دکھانے کے شوقین وہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ البتہ ان کا انداز مختلف ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ دیسی طریقے کا ہے۔ زیادہ تر خواجہ سرائوں نے ناچ گانے کو اپنا روزگار بنایا ہوا ہے۔ جس گھر میں انہیں ’’کاکا‘‘ ہونے کی خبر مل جائے تو انکے وارے نیارے ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سے اس پیشے سے ہٹ کر دوسرے دھندوں میں مصروف ہیں۔ شام ڈھلتے ہی شہر کے معروف چوک چوراہوں پر بن ٹھن کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اگر سرکاری سطح پر مکمل طور پر انکی سرپرستی کا ذمہ لے لیا جائے‘ انہیں سرکاری نوکریوں سمیت معاشرے کیلئے کارآمد شہری بنانے پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ لوگ ناچ گانا اور گداگری چھوڑ کر معاشرے میں کارآمد شہری بن کر باعزت زندگی نہ گزاریں۔ 2021ء میں محکمہ ایکسائز پنجاب خواجہ سرائوں کے ذریعے ٹیکس چوروں سے ٹیکس وصولی کا کامیاب تجربہ کر چکا ہے۔ خواجہ سراجس ٹیکس چور کے گھر جاتے‘ اس سے ٹیکس وصول کرکے ہی واپس لوٹتے تھے۔ بہت سے تو اس سبکی سے بچنے کیلئے پہلے ہی ٹیکس جمع کرا دیتے۔ ظاہر ہے خواجہ سراکی تالیاں ہی محلے میں کہرام مچا دیتی تھیں اور ٹیکس دہندہ کو محلے میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب خواجہ سرائوں نے ٹیکس وصولی کا ذمہ لیا تو قومی خزانہ نکونک بھر گیا تھا۔ اگر حکومت ان سے ٹیکس وصولی کے ساتھ ساتھ مافیاز کیخلاف بھی انکی خدمات حاصل کرلے تو ملک سدھار کی طرف جا سکتا ہے۔ مگر اس وقت کیا ہوگا‘ جب اس جواز پر خواجہ سراحکومتی عہدے لینے پر مصر ہو جائیں کہ جو کام حکومت نہیں کر سکی‘ وہ ہم نے کر دکھایا اس لئے عوام سیاست دانوں کے بجائے اس مرتبہ ہمیں خدمت کا موقع دیں۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے ٹرانس جینڈر کا یہ اقدام ان خواجہ سرائوں کیلئے مشعل راہ ہے جو صرف ناچ گانے کو ہی اپنا روزگار سمجھ بیٹھے ہیں۔ شہزادی صاحبہ بس یہ خیال ملحوظ خاطر رکھیں کہ منتخب ہونے کے بعد اگر محلے کا کوئی کام کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس خوشی میں مجرے کا اہتمام نہ کرا بیٹھیں۔
خوراک مہنگی ہونے سے عوام کی قوت خرید میں 38 فیصد کمی
حکمرانوں کو سیاسی جنگ سے فرصت ملے تو وہ زندگی کی جنگ لڑنے والے کروڑوں عوام کی فکر کریں۔ کہنے کو تو وہ پاکستان کے عوام ہیں جن پر یہ اشرافیہ حکمرانی کر رہی ہے‘ چند فیصد اشرافیہ،مافیاز اور لٹیروں نے انکی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔خود عیش و آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ کروڑوں عوام جن کے ٹیکس پر عیاشی کی جارہی ہے‘ بے چارے ایک وقت کی روٹی کو محتاج ہو رہے ہیں۔ امرا کے دستر خوان پھیل رہے ہیں جبکہ غربا کے سکڑ کر عملاً ختم ہو چکے ہیں۔انکی زندگی تو اب اس شعر کے مصداق ہوگئی ہے۔ کہ:
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
لوگوں کی قوت خرید اب اتنی بھی نہیں رہی کہ وہ معمولی سی سبزی یا دال ہی خرید سکیں۔ دالیں تو گوشت کے بھائوبک رہی ہیں۔بعض غریبوں کے گھروں کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ ملک قحط کی زد میں ہے۔ غریب کے دستر خوان پر سادہ روٹی‘ چٹنی‘ یا پیاز حکمرانوں کی بے نیازی کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسری طرف امرا کے دستر خوان کی طرف دیکھا جائے تو لگتا ہے پاکستان دنیا کا خوشحال ترین ملک ہے۔ کیا ہمارے حکمران روکھی سوکھی کھا کر عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا‘ ملک میں بہتری نہیں آپائے گی۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ میں گارنٹی دیتا ہوں‘ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا‘ بے شک ملک دیوالیہ نہیں ہوگا‘ لیکن انہیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ انکی ناقص اقتصادی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے سامنے لیٹنے سے عوام کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ وہ نہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں۔ انہیں صرف لالی پاپ کے سہارے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخر حکمرانوں کا یہ فارمولا کب تک کارگر رہ سکتا ہے۔ آگے انتخابات آرہے ہیں‘ اس میں انہیں عوام کے موڈ کا اندازہ ہو جائیگا۔
٭…٭…٭