ناسا کی جانب سے مریخ پر رضاکاروں کو بھیجنے کی تیاری اختتامی مراحل میں داخل ہوگئی ہے، رضاکاروں کے لئے مریخ کی نقل کرتے ہوئے ایک خاص تجربہ گاہ قائم کردی گئی ہے، جہاں وہ ایک سال گزارنے کے بعد مریخ پر جانے کے لئے تیار ہوں گے۔مریخ پر ایک سال گزارنے والے 4 رضاکاروں میں سے ایک کینیڈین ماہر حیاتیات کیلی ہیسٹن کا کہنا ہے کہ ’مریخ پر زندگی بسر کرنا کبھی بھی میرا خواب نہیں تھا لیکن میں اس کی تیاری کر رہی ہوں اور یہ ابھی بھی مجھ غیر حقیقی لگتا ہے‘۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ناسا نے انتہائی احتتاط سے 4 رضاکاروں کا انتخاب کیا ہے، جو رواں سال جون کے اختتام پر آئندہ 12 ماہ کے لئے ایک خاص طویل مدتی مشق کا حصہ ہونگے، جہاں انہیں مریخ پر زندگی بسر کرنے کے تجربے سے گزارا جائے گا۔ناسا نے ان رضاکاروں کو مستقبل میں مریخ پر بھیجنے سے قبل ایک خاص طویل مدتی مشق کا اہتمام کیا ہے، جس کے ذریعے الگ تھلگ اور محدود ماحول میں ان رضاکاروں کے رویے کا اندازہ لگا سکیں۔اس مشق کے دوران اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے 52 سالہ کینیڈین ماہر حیاتیات کیلی ہیسٹن کا کہنا ہے کہ ’اس مشق میں صرف کھاوا کر رہے ہیں کہ ہم مریخ پر ہیں، ’مریخ پر زندگی بسر کرنا کبھی بھی میرا خواب نہیں تھا لیکن میں اس کی تیاری کر رہی ہوں اور یہ ابھی بھی مجھ غیر حقیقی لگتا ہے‘۔خلائی ایجنسی ناسا اور کیلی ہیسٹن نے خبردار کیا ہے کہ رضاکاروں کو آلات کی ناکامی اور محدود پانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ زمین اور مریخ کے درمیان رابطے کے دوران بھی انہیں تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا، سیاروں کی پوزیشن کے لحاظ سے تقریباً 20 منٹ یک طرفہ جبکہ 40 منٹ دو طرفہ تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔خیال رہے کہ اس طویل مدتی مشق کے لئے ناسا نے ہیوسٹن میں ایک مارس ڈیون الفا کے نام سے 1700 اسکوائر فٹ پر تھری ڈی اسٹکچر قائم کیا ہے۔ جس میں بیڈ رومز، جم، کامن ایریا اور خوراک اگانے کے لیے ایک عمودی فارم موجود ہے۔کیلی ہیسٹن کے مطابق اس میں ایک بیرونی حصہ بھی ہے جہاں اسپیس واک یا مریخ کی سیر کی نقل کریں گے۔اس علاقے کو شہر سے دور قائم کیا گیا ہے، جو ہوائی جہاز کے ذریعے رابطے میں ہے، اس جگہ کی مٹی کو مریض کی نقل کرتے ہوئے سرخ رکھی گئی ہے تاہم یہ علاقہ کھلاہوا نہیں ہے بلکہ مکمل ڈھکا ہوا ہے۔