اپریل 2022ء میں عمران حکومت قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی بدولت فارغ ہوگئی تو سابق وزیر اعظم اپنے و عدے کے مطابق ’مزید خطرے ناک‘ ہوگئے۔ شہر شہر جاکر جلسوں سے ’میر جعفر وصادق‘ کے خلاف خطاب کے علاوہ انھوں نے سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے ایک طاقتور بیانیہ تشکیل دینا شروع کردیا۔ ان کے مخالف سیاستدانوں نے مذکورہ بیانیہ کی شدت اور دور رس اثرات پر توجہ ہی نہ دی۔ میں البتہ اس کے بارے میں تواتر سے خبردار کرنا شروع ہوگیا۔ جس سنجیدگی سے میں نے عمران خان کی بیانیہ سازی پر توجہ دی اس نے قارئین وناظرین کی اکثریت کو حیران کردیا۔
قارئین وناظرین کے برعکس جن سیاستدانوں سے برسوں کے روابط کی وجہ سے دوستانہ شناسائی استوار ہوئی تھی میرے رویے سے ناراض ہونا شروع ہوگئے۔ ذاتی ملاقاتوں میں مسلسل یاد دلاتے رہے کہ سابق وزیر اعظم نے اگست 2018ء میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی ٹی وی سکرینوں کو جن افراد سے ’پاک‘ کرنے کافیصلہ کیا تھا میرا نام ان میں سرفہرست تھا۔ اکتوبر2018ء میں بالآخر مجھے زندگی میں پہلی بار کسی صحافتی ادارے نے نوکری سے نکال دیا۔ اس سے قبل ہمیشہ ازخود مستعفی ہونے کی عادت اپنائے رکھی تھی۔ کسی صحافتی ادارے کی پالیسی سے اختلاف بڑھنا شروع ہوجائے تو یہ احساسِ جرم تنگ کرنا شروع ہوجاتا ہے کہ میری گستاخ تحریروں سے حکومت وقت ناراض ہورہی ہے۔جس ادارے کے لیے کام کرتا ہوں وہاں کے مالکوں سے زیادہ وہاں کام کرنے والوں کو اس وجہ سے معاشی مشکلات کی زد میں لانے کے بجائے ’باجو کی گلی‘ سے نکل جانے کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔
جی ہاں اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہونے والی حکومت نے مجھے انتہائی ذلت آمیز انداز میں ٹی وی سکرینوں کے لیے ناقابل مقبول بنادیا تھا۔ اس کے بعد عمر کے آخری حصے کے تین سے زیادہ سال بہت مشکل میں گزارے۔ یہ اقرار کرلینے کے بعد یہ اصرار کرنا بھی ضروری ہے کہ میری ذلت بھری بے روزگاری کا سبب میری ’صحافت‘ تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ہاتھوں جو بھگتا اس کا حساب چکانے کے لیے صحافی کی جبلت میں موجود تجسس کو مگر ختم کرنے کے قابل ہی نہیں۔ صحافتی جبلت کی بدولت ہی میں اپریل 2022ء کے بعد ہوئے چند ضمنی انتخابات کو ’لوٹوں‘ کے خلاف ’ریفرنڈم‘ کی صورت دیکھنے کے قابل ہوا۔ اس کا فائدہ اگر تحریک انصاف کے بیانیے کو ہوا تو میں نہیں بلکہ وہ سیاستدان اس کے ذمہ دار ہیں جنھوں نے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت بنائی تھی۔
حالیہ ماضی سے جڑے بے تحاشا واقعات میں الجھے بغیر آج کے اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہوئے بیان فقط یہ کرنا ہے کہ آج سے تقریباً دو ہفتے قبل تک مجھے سرِراہ ملنے والے لوگوں نے ’اب کیا ہوگا؟‘ والے سوال پوچھنا چھوڑ دیے تھے۔ مجھے پہچان کر اکثر لوگ ہاتھ ملانے کوبھی رکتے نہیں تھے۔ چلتے چلتے بلند آواز میں ’سلام نصرت صاحب!‘ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ میں ان کے رویے سے یہ اخذ کرنا شروع ہوگیا کہ عام لوگوں کی اکثریت سیاست سے اکتاکر اب اپنے روزمرہ مسائل پر توجہ دینا شروع ہوگئی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے آغاز سے مگر یہ رویہ ’یکدم’‘ بدلا محسوس ہورہا ہے۔
کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے کسی مارکیٹ جاؤں تو وہاں موجود افراد میں سے کئی لوگ دوکانوں کے اندر اور باہر مجھے دیکھتے ہی یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عدلیہ کے ساتھ جس انداز میں معاملات بگڑرہے ہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔ دیانتدارعاجزی کے ساتھ اس ضمن میں اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ہوں۔ ساتھ ہی مگر یہ دعا بھی کہ ریاست کے بنیادی ستونوں کے مابین تخت یا تختہ والا مقام نہ آئے۔ حیران کن حقیقت مگر یہ ہے کہ مجھ سے سوال پوچھنے والوں کی اکثریت ’دعائے خیر‘ میں حصہ نہیں ڈالتی۔ تخت یا تختہ کی متمنی نظر آتی ہے۔ یہ لکھنے کی ہمت نہیں کہ وہ کس کا ’تختہ‘ ہوا دیکھنا چاہ رہی ہے۔
ابھی اس عمومی رویے کی وجوہات سمجھ ہی نہیں پایا تھا تو تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن پر حملے کی خبر ریگولر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس دیدہ دلیر حملے کے بعد سے جو لوگ مجھے سرِراہ مل رہے ہیں وہ ’صحافی‘ سے ’اصل واقعہ‘ جاننے کے متمنی نہیں۔ اپنے تئیں حملہ آوروں کی شناخت کرچکے سنائی دیتے ہیں۔ نہایت عاجزی سے صحافتی تجسس کو بروئے کار لاتے ہوئے میں ان سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ رؤف حسن پر ہوئے حملے کے ذمہ داروں کا ’تعین‘ کن وجوہات کی بنیاد پر کرپائے ہیں۔ ان کا غصے سے بپھرا انداز مگر ایسے سوالات اٹھانے کی ہمت سے محروم رکھتا ہے۔
تقریباً روزانہ کی بنیاد پر فقط سرِراہ ملے کامل اجنبیوں سے ہوئی سرسری گفتگو جوسوچنے کو مجبور کرتی ہے۔اسے کالم یا ٹی وی پروگرام میں بیان کردوں تو مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا رضا کار مجھے ’بڈھا جیالا‘ پکارنا شروع ہوجاتے ہیں۔ان میں سے شاید ہی کوئی شخص اس حقیقت سے باخبر ہوکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران میں طالب علم سیاست میں متحرک تھا اور اس کی وجہ سے اکثرزیر عتاب رہا۔ جنرل ضیاء کے طویل مارشل لاء کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جو مزاحمت دکھائی وہ قابل ستائش تھی۔ اسے قریب سے دیکھنے کے بعد سنسر سے بچ بچاکر رپورٹ کردیا کرتا تھا۔ انگریزی اخبارات سے منسلک ہونے کی وجہ سے میری کاوشیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی نگاہ میں مسلسل آتی رہیں۔
اسی باعث اپنے دونوں ادوار حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اکثر میرے لکھے چند کالموں یا فقروں سے ناراض ہوجانے کے باوجود درگزر سے کام لیتیں۔ مرحوم ضیاء الدین جیسے سینئر صحافیوں کے ہمراہ ان سے ملاقات ہوتی تو وہ بہت شدت سے دلائل کے ساتھ اپنے رویے کو درست اور ہماری رائے غلط قرار دینے کو ڈٹ جاتیں۔ ان کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے بھی بطور صدر پاکستان ایسا ہی رویہ اپنائے رکھا۔ 2013ء کے بعد مگر ان سمیت پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما بھی صحافیوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ مگر کھلی ڈلی بحث کے عادی نہیں رہے۔ اس تناظر میں تین چار مستثنیات ہیں۔ ان کے نام مگر لکھ دیے تو پارٹی میں ان کی سبکی ہوگی۔
مسلم لیگ (نواز) کی قیادت اور سرکردہ رہنما (ایک یا دو افراد کے علاوہ) صحافیوں کے ساتھ مکالمے کے عادی نہیں۔ اپنے ’حلقوں‘ میں وہ مگر طاقتور دھڑوں کے نمائندہ اور ڈیرے دار بھی ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اسلام آباد کے بازاروں میں مجھے روک کر اجنبی لوگ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ ان رہنماؤں تک کیوں نہیں پہنچ رہے۔ اس سوال کا رعونت سے مذاق اڑانے کے بجائے سوشل میڈیا کی بدولت ’پاسداران نواز شریف‘ ہوئے افراد سے نہایت خلوص سے التجا ہے کہ وہ مذکورہ سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ ان کی جانب سے بتائی وجوہات پر نہایت توجہ سے غور کا وعدہ کرتا ہوں۔