سردار عبدالخالق وصی
وزیراعظم اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے جس طرح کرغیزستان میں غیر محفوظ پاکستانی طلبا کو تیز رفتار کارروائی کرتے ہوئے پاکستان لایا اس سے جہاں کرغیزستان میں زیر تعلیم طلبا ان کے خاندانوں اور رشتہ داروں کو کرب سے سکون ملا وہاں عام پاکستانی حکومت کے اس قابل تحسین اقدام پر خوش ہے اور ان کے حکومت پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سفارتی مہارت کے شاندار مظاہرے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار اور وزیر امور کشمیر انجنئیر امیر مقام نے کرغیزستان میں پھنسے پاکستانی اور کشمیری طلباء کی واپسی میں جس کامیابی اور تیزی سے سہولت فراہم کی ہے۔ اس بروقت کوشش نے انہیں طلباء ، ان کے خاندانوں اور بڑے پیمانے پر قوم کی طرف سے بڑے پیمانے پر تعریف،اعتماد اور تشکر حاصل کیا ہے۔
یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب کرغیزستان میں سیاسی بدامنی نے ایک افراتفری کی صورت حال پیدا کر دی، جس سے بہت سے پاکستانی طلباء نے کرغیزستان کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا ہوا تھا ان کی زندگیاں خطرے میں اور صورت حال بہت نازک ہو گئی تھی۔اگرچہ اس میں پاکستانی طلبا کا کوئی قصور تھا نہ وہ اس صورت حال کا حصہ تھے بتایا جاتا ہے وجہ نزاع مصر کے طالب علموں اور مقامی طلبا کے درمیان پیدا ہوا جس میں دیگر غیر ملکی طلبا بھی لپیٹ آگئے۔ تاہم، پاکستانی حکومت کے فوری ردعمل اور اقدامات نے ان کے محفوظ انخلاء کو یقینی بنایا، جو وفاقی حکومت کے بیرون ملک اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے قیادت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر امور کشمیر و سیفران انجینئر امیر مقام کو فوری طور پر بچوں کے محفوظ انخلا کی ہدایت کی۔وزیر اعظم شہباز شریف اس وقت لاہور میں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور میں مقیم تھے کہ انہیں اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وزیر اعظم کی تیز فیصلہ سازی اور نائب وزیر اعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی سفارتی کوششوں نے بحران کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ دریں اثنا، امور کشمیر کے وزیر انجینئر امیر مقام نے متعلقہ حکام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے انتھک محنت کی، بغیر کسی رکاوٹ کے انخلاء کے عمل کو یقینی بنایا۔
کرغیزستان میں زیر تعلیم تقریباً 10,000 پاکستانی طلباء میں سے، صرف چار دنوں میں 3500 سے زائد طلباء کو کرغیزستان سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے، جس سے ان کے پریشان کن خاندانوں کو گھر واپس آنے میں راحت ملی ہے۔ حکومت کے فوری اقدام نے ان طلباء اور ان کے اہل خانہ کی آزمائش کا خاتمہ کر دیا ہے، جو پہلے اپنے پیاروں کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند تھے۔
طلباء کی اکثریت جو اب بحفاظت پاکستان واپس آ چکے ہیں، نے فوری کارروائی پر وزیراعظم شہباز شریف،وزیر خارجہ اسحاق ڈار،وزیر امور کشمیر امیر مقام،وفاقی حکومت،مسلم لیگ ن کی قیادت اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ ایک طالب علم نے کہا، "ہم خوف و ہراس کی حالت میں تھے، لیکن حکومت کے فوری اقدام نے ہمیں ممکنہ طور پر خطرناک صورتحال سے بچا لیا۔"
انخلاء کا یہ کامیاب مشن انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنے شہریوں کی حفاظت اور بہبود کے لیے حکومت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ قیادت کی بروقت کوششوں سے نہ صرف انہیں پہچان ملی ہے بلکہ ان کی حکومت پر عوام کے اعتماد کو بھی تقویت ملی ہے۔
تاہم، یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی مسائل کو ایڈریس کیا جائے جو اس بحران کا باعث بنے۔ ان میں سے بہت سے طلباء نے کثیر ڈالروں میں بھاری رقم ادا کرنے کے بعد کرغیزستان کے کم معیاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کیا تھا۔ یہ امر ایک ستم ظریفی سے کم نہیں ہے کوئی بھی شعبہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے جہاں مافیا کے پنجے گاڑے نظر نہ آرہے ہوں۔ کرغیزستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جہاں تقریباً 83 فیصد مسلمان آبادی ہے لیکن وہاں کے تعلیمی ادارے اپنی فیکلٹیز کے حوالے سے وہاں کا سماجی ماحول دیگر ممالک کے نہ مماثل ہے اور نہ ان اداروں کی بین الاقوامی سطح کی کوئی شناخت ہے یہاں کے بارے میں بتایا جاتا ہے وہاں بھی ہمارے ممالک سے گئے بعض نوسر باز لوگوں کو ان تعلیمی اداروں میں میڈیکل کی پیشہ ورانہ تعلیم کا جھانسا دیکر ڈالروں میں کثیر رقم بٹورتے ہیں اور پاکستانی طلبا کو ان کالجوں میں داخلے کرواتے ہیں جبکہ ان کا تعلیمی معیار اور دیگر ضروری سہولیات بھی وہاں دستیاب نہیں ہوتیں صرف پانچ سال میں ایم بی بی ایس کی سند انہیں تھما دیتے ہیں جو بعد میں یہاں اداروں سے بھی ملی بھگت سے انکی رجسٹریشن کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل PMDC کبھی کمشن ہوتی اور کبھی کونسل اس طرح ان امور پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہوتی کہ اندرون خانہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے یہ ادارے یہاں تسلیم Recognized بھی ہو جاتے ہیں جن کا کوئی معیار ہی نہیں ہوتا اور نہ اس سطح کی ان کی تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت ہوتی ہے۔کرغستان کوئی ترقی یافتہ ملک بھی نہیں ہے اور وہاں کی کثیر آبادی روزگار کے مواقعوں کی تلاش میں دیگر پڑوسی ممالک کا رخ کرتی ہے۔
موجودہ حکومت کو اس معاملے کا بھی نوٹس لینا چاہیے اور اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ یہ کالج مطلوبہ معیارات پر پورا نہ اترنے کے باوجود پی ایم ڈی سی( PMDC) میں طلبہ کو کیسے رجسٹر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مزید برآں، حکومت کو اس معاملے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ طالب علموں کو بیرون ملک ذیلی تعلیمی اداروں میں بھاری فیسوں اور غیر معیاری اداروں میں داخلہ لینے کا لالچ دیا جاتا ہے اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں۔
کرغیزستان، اگرچہ ایک برادر اسلامی ملک ہے جہاں مسلمانوں کی واضع اکثریت بھی ہے اور ملی جلی ثقافت کا امتزاج بھی وہاں طالب علموں کے لیے سازگار ماحول کا فقدان ہے، اور حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کہ تعلیم کے نام پر پاکستانی طلبہ کا استحصال نہ ہو۔ طالب علموں کو وہاں سے نکالنے میں حکومت کا تیز رفتار اقدام قابل ستائش ہے، لیکن اس مسئلے کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے مزید جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ جس عجلت اور ذمہ داری سے موجودہ حکومت نے بچوں کے جانی و مالی نقصانات سے بچاتے ہوئے ان کے انخلا کو ممکن بنایا اس کا بھی اہتمام کریں گے متاثرہ بچوں کی تعلیم کا تسلسل نہ ٹوٹے انہیں بہتر متبادل ریلیف مل سکے۔