دْنیا تنائوکی زد میں

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دْنیا کے تمام خطے کسی نہ کسی بڑے یا چھوٹے تنازعے میں اْلجھے ہوئے ہیں۔ جنگ وجدل اور مقابلے کی فضا کی وجہ سے دْنیا تنائو کا شکار ہے اور اِس تنائو کا خاتمہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی چیلنج ہے جس کے لیے معاشروں اور قوموں کی جانب سے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔دْنیا کے بڑے مفکرین کو ایک پرامن اور ہم آہنگ عالمی معاشرہ تشکیل دینے کے بارے میں غور و فکر کرنا ہوگی۔ سائنس کی بے پناہ ترقی اوربرق رفتار جدت کی بدولت دْنیا ایک دوسرے سے جْڑ گئی اور گلوبل ویلیج کا تصورعام ہوگیا مگر اِس کے ساتھ ساتھ دْنیامیںافراد اور معاشروں کو بے شمار چیلنجز بھی درپیش ہو گئے۔ دْنیا میں جہاں لوگ ٹیکنالوجی کے ذریعے باآسانی ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے وہاں تنائو اور بے یقینی کے احساس میں بھی اضافہ ہوا اور دْنیا جغرافیائی و سیاسی کشیدگی اور ماحولیاتی بحران سے لے کر سماجی اور اقتصادی عدم مساوات تک چیلنجز کی زد میں آگئی۔آج کی دْنیا میں تنائو کی سب سے نمایاں شکل جغرافیائی و سیاسی تنازعے ہیں۔ علاقائی تنازعات، وسائل کی مسابقت اور نظریاتی اختلافات کی وجہ سے قوموں کے درمیان تنازعات اور عدم استحکام کا ماحول پیداہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ ، مشرقی یورپ اور ایشیاء جیسے خطوں میں جاری تنازعات نہ صرف براہ راست ملوث ممالک کو متاثر کرتے ہیں بلکہ علاقائی و عالمی سلامتی اور اقتصادی استحکام پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں سے ماحولیاتی بحران بھی تنائو کی ایک وجہ بنتا جارہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کا خاتمہ اور آلودگی جیسے عوامل کی بدولت انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے ملکوں کے مابین تنائو کی کیفیت میں اضافہ ہورہا ہیکیونکہ ریاستیں ایک دوسرے کو ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔ توانائی پر تنازعات کی ایک تاریخ ہے اور پانی پر جنگوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی بحران کے علاو ہ سماجی عدم مساوات کا معاشروں کے اندراہم کردار ہوتا ہے۔ معاشی تفاوت، نسل، جنس اور دیگر عوامل کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور مختلف سماجی گروہوں کے درمیان تقسیم اور تنائو پیدا کرتی ہے۔اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کو چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ عوامی تحریکوں کے عروج اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات کے پھیلائو نے معاشروں کو مزید تقسیم کیا جو سماجی ہم آہنگی کے حصول میں ایک مشکل ہے۔معاشی عدم استحکام اور تفاوت کی اِس تنائو میں مرکزی حیثیت ہے۔ یہ بات طے ہے کہ عالمگیریت نے اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کی ہے لیکن اِس نے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بھی واضح طور پر بڑھا دیا۔ دْنیا میں بہت سے لوگ معاشی عدم تحفظ کے ساتھ زندگی کی جدوجہد کرتے ہیں اور مسلسل پریشانی اور مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ معاشی بحران، کساد بازاری اور مالیاتی زوال لوگوں کے لیے ، بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا کرتے ہیں جو اکثر سماجی بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس تنائو کو کیسے ختم یا کم کیا جائے؟ میرے خیال میں دْنیا میں مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دے سکتی ہے۔دْنیا میں قائم بین الاقوامی ادارے ، حکومتیں، تعلیمی ادارے اور تھنک ٹینکس ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جہاں متنوع ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان اختلافات اور مشترکات پر بات کی جاسکے۔طاقتور اور امیر ممالک ترقی پذیر ملکوں میں چند اقدامات کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ اْن کے بڑے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اْن ملکوں کی مدد کریں۔ ترقی پذیر ملکوں کے پانچ بڑے اہداف یہ ہو سکتے ہیں۔اول : شفاف، جوابدہ، اور جامع طرز حکمرانی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ حکومتوں کو بدعنوانی کے خاتمے، انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی عمل میں تمام شہریوں کی آواز کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دوم: منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی نظام کو مضبوط بنانے سے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں شکایات کا ازالہ کرنا اور تشدد کی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے استثنیٰ کو روکنا شامل ہے۔ سوئم :اِس بات کو یقینی بنانا کہ تمام افراد کو بنیادی انسانی حقوق تک رسائی حاصل ہو۔ آزادی اظہار، اجتماع اور مذہبی آزادی بھی سماجی انصاف کے لیے بہت ضروری ہیں۔ حکومتوں اور تنظیموں کو اِن حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے اور خلاف ورزیوں کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے۔ چہارم : صنفی اور نسلی امتیاز کو دور کرنا، سماجی تنائو کو کم کر سکتا ہے۔ مساوات کو فروغ دینے والی پالیسیاں اور پروگرام ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے اہم ہیں۔ پنجم : میڈیا کو درست اور ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرنے کی ترغیب دینا کہ میڈیا سنسنی خیزی سے بچنے اور اشتعال انگیز مواد کے پھیلائو کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔
دْنیا کی بڑی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑے تنازعات کے حل اور ثالثی کے لیے مخلصانہ اور جامع کوششوں کا آغاز کریں۔ جن خطوں میں تنازعات ہیں وہاں ثالثی اور امن کے لئے اقدامات کے استعمال کی حوصلہ افزائی سے کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں اِن اقدامات کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔تمام ممالک کو عالمی چیلنجز جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی تعاون اعتماد پیدا کر سکتا ہے اور تنازعات کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔عالمی تنائو میں کمی کے لئے سفارت کاری کا استعمال بھی اہم ہے۔ ثقافتی تبادلے، غیر ملکی امداد، اور بین الاقوامی شراکت داری بھی قوموں کے درمیان مثبت تعلقات استوار کر سکتی ہے اور یوں تنائو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔دْنیا میں تنائو کا خاتمہ ایک مسلسل کوشش ہے جس کے لیے لگن اور تعاون کی ضرورت ہے۔ مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے، معاشی اور سماجی عدم مساوات کو دور کرنے، نظم و نسق اور انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے، اِنسانی حقوق کا تحفظ، تنازعات کے حل کی حوصلہ افزائی،عالمی تعاون کو فروغ دینے اور ذمہ دار میڈیا کو فروغ دے کر ہم پرامن اور ہم آہنگ دْنیا کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
یہ سب شاید تب ممکن ہو سکتا ہے جب دْنیا میں بڑی طاقتیں اور امیر ممالک دْنیا کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھنا بند کر دیں گے۔ دْنیا میں امن ، استحکام اور خوشحالی بڑی طاقتوں کا مفاد اور مطمئع نظر ہوگا تو وہ اْس کے لئے انصاف اور شفافیت کے بڑے اصول طے کریں گے۔ اور اگر ایسا ہو سکے تو دْنیا ایک بہت خوبصورت جگہ میں بدل سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن