واہگہ باڈر کے قریب منشیا ت لیجانے والا ڈرون گر گیا
گزشتہ کچھ عرصہ سے لاہور کے گرد و نواح میں خاص طور پر سرحدی علاقوں کے آس پاس جس طرح ڈرون کے ذریعے منشیات کی فراہمی میں تیزی آئی ہے اس حوالے سے پنجاب پولیس کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔ اگر یہ چند ڈرون ازخود نہ گرتے تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ معمولی ڈرون نہیں کروڑوں روپے کے قیمتی ڈرون ہیں جو نہایت اطمینان سے منشیات مافیا اڑا کر تمام ناکوں سے تلاشیوں سے بچ کر سارا مال آرام سے مطلوبہ جگہ یا شخص تک پہنچاتا ہے۔ یوں وہ رشوت دینے سے بھی بچ جاتا ہے اور چند ہزار کا ڈرون لے کر کروڑوں کماتیہیں۔ یعنی ڈرونز باربرداری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شاید اسے ہی کہتے ہیں’’ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے‘‘ بس ہمیں یہ فکر لاحق ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ ڈرون ملک دشمن عناصر استعمال کرنے لگے تو کیا ہو گا۔ ان ڈرونز کی دسترس سے کوئی عمارت کوئی جگہ محفوظ نہیں ہو گی۔ اگر پولیس پہلے ہی ڈرون کے منشیات کے لانے لے جانے والے عناصر کے خلاف ایکشن لیتی تو یہ لوگ اتنے دلیر نہ ہوتے۔ اس سے چلیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ منشیات فروش اب کتنے ماڈرن.ہو گئے اور جدید ٹیکنالوجی سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے پولیس والے ناکوں پر کھڑے چیکنگ کرتے ہیں اور یہ ڈرون ان کے سروں کے اوپر سے منشیات بھر بھر کرلے جا رہے ہوتے ہیں پہلے کہا جاتا تھا جرائم پولیس کی ناک کے نیچے ہوتے ہیں اب کہا جا سکتا ہے۔ سر کے اوپر سے ہوتے ہیں۔ نہ پہلے جرائم ختم ہو سکے نہ اب ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھے کام کی بجائے غلط کاموں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کے اس استعمال پر کنٹرول کرنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ خیبر پی کے نے نسوار پر ٹیکس کی مخالفت کردی
اس حوالے سے واقعی وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کو بجا طور پر عوامی وزیر اعلیٰ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران نسوار پر ٹیکس لگانے کی بات کرنے والوں کی سختی سے بیخ کنی کی اور کہا کہ یہ غریب لوگوں کے استعمال کی چیز ہے۔ اس لیے اسے ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے نسوار پر ٹیکس لگایا تو عوام کا پارہ ہائی ہو جائے گا جو اس گرمی کے موسم میں پہلے ہی بہت ہائی رہتا ہے۔ اب اگر نسوار حیسی عزیز از جاں چیز جو لوگوں کی اکثریت اپنی جیب میں ہر وقت رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں بھلا یہ کب برداشت کرتے کہ کوئی حکمران ان کی محبوب اس پڑیا پر ٹیکس لگائے یعنی اسے مہنگا کرے۔ وہ تو اس پر نظر ڈالنے والے کی آنکھیں نوچ لیں قیمت بڑھانا تو دور کی بات ہے۔ وہ تو اس کے خلاف بولنے والوں کی زبان گدی سے کھینچ لینے کے درپے ہوتے ہیں۔ اب وہاں کے لوگ خوشی سے شادیانے بجا رہے ہوں گے۔ روٹی سستی ہو نہ ہو کم از کم نسوار تو مہنگی ہونے سے بچ گئی ہے۔ روٹی تو دن میں دو مرتبہ صبح اور شام کو کھائی جاتی ہے۔ نسوار کی تو 24 گھنٹے طلب رہتی ہے۔ مئے گلفام سے زیادہ یہ سبز پری اپنے چاہنے والوں کو عزیز ہوتی ہے۔ اس لیے اس پر ہاتھ ڈالنے سے سب ڈرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
17 سال پرانے قتل کیس کا فیصلہ 4 سال قبل جیل میں مرنے والا ملزم بھی بری
یہ ہوتا ہے انصاف میں تاخیر کا انجام۔ کئی بے گناہ بھی اس تاخیر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کو کیا اہمیت دی جاتی ہے۔ قتل کا مقدمہ 17 سال چلتا رہا۔ 4 افراد گرفتار ہوئے جیل میں اذیت اٹھاتے رہے۔ مگر عدالتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ برسوں مقدمات چلتے رہتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں ناں دادا کے لگائے درخت کا پھل اس کے پوتے کھاتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں دادا کے مقدمے کا فیصلہ اس کے پوتے سنتے ہیں۔ عام چھوٹے موٹے مقدمات برسوں عدالتوں میں انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ جن مقدمات کی سزا چند ماہ ہوتی ہے وہ بھی سالوں چلتے ہیں اور ملزم کو چند ماہ کی بجائے کئی سال جیل میں سڑنا پڑتا ہے۔ اب اگر وہ بری ہو جاتا ہے تب بھی اس کو ملی سزا کا کوئی معاوضہ کوئی فائدہ اسے نہیں ملتا۔ وہ بے چارا بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش رہتا ہے۔ اب اس مقدمہ قتل میں ہی دیکھ لیں 17 سال بعد فیصلہ آیا کہ ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ اس پر 3 ملزمان نے تو سجدہ شکر ادا کیا ہو گا مگر اس چوتھے ملزم کا کیا بنے گا جو فیصلہ آنے سے 4 سال قبل جیل میں ہی قید کے دوران انتقال کر گیا ہے۔ اب وہ یا اس کے گھر والے کون سی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر انصاف طلب کریں۔ کیا ہی بہتر ہو کر عدالتیں صرف عوام کے کیس سنیں،سیاسی بازیگروں کے لیے علیحدہ عدالتیں اور جج تعینات کیے جائیں جہاں صرف ان کے سیاسی کیس ہی چلیں۔ اس طرح کم از کم ان طویل لایعنی کیسوں کی وجہ سے عوام کے فوری نوعیت کے کیسوں کو تو برسوں لٹکانے سے جان چھوٹے گی۔
٭٭٭٭٭
اڈیالہ جیل کے قیدی بھی سہولتوں کا مطالبہ کرنے لگے
یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ اب ہر قیدی ایسی فرمائش کرتا پھرے کہ اسے بھی وہی سہولتیں دی جائیں جو اڈیالہ جیل میں قید ایک سیاسی جماعت کے بانی کو حاصل ہیں۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ایسی سہولتیں تو یورپ اور امریکہ کی جیلوں میں بھی قیدیوں کو میسر نہیں ہوتیں جو پی ٹی آئی کے بانی کو اڈیالہ جیل میں میسر ہیں۔ ہو سکتا ہے جیل کی پھیکی ابلی ہوئی دال اور جلی ہوئی روٹیاں کھا کھا کر باقی قیدیوں کا دل بھر گیا ہو اور وہ بھی دیسی مرغ اور وہ بھی دیسی گھی میں تلے ہوئے پراٹھوں کے ساتھ کھانے کی فرمائش کر رہے ہوں ایسے مرغن کھانے تو عام آدمی کو جیل سے باہر بھی نہیں ملتے۔ اب اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ قیدی ایئرکولر، چارپائی، بستر اور ورزش کے لیے سامان بھی طلب کرنے لگے تو کیا ہو گا یوں تو مطالبات کی فہرست بہت لمبی ہو جائے گی جو پوری کرنا اس عالم میں تو ممکن نہیں۔ یہ سہولتیں تو سونے کے پروں والے پروانوں کے لیے ہوتی ہیں۔ عام لوگوں کے لیے نہیں۔ اس لیے عام قیدی ایسی سہولتوں کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اس وقت فی الحال انہیں جو دال روٹی ملتی ہے اسی پر خدا کا شکر ادا کریں کہ یہ بھی مل رہی ہے۔ وہ بھی مفت میں ورنہ اگر وہ باہر ہوتے یعنی آزاد شہری ہوتے تو انہیں یہی دال روٹی کمانے کے لیے اس گرمی میں کیا کیا جتن کرنا پڑتے اور پھر بھی پوری نہ پڑتی اور وہ پھر یہی کہتے ’’قید مانگی تھی رہائی تو نہیں مانگی تھی۔ ‘‘
٭٭٭٭٭