سرگودھا شہر میں مقدس اوراق کی بے حرمتی کے سانحے پر مشتعل افراد نے مسیحی شخص اور پولیس افسروں اور اہلکاروں کو زخمی کر دیا۔ انتظامیہ اور پولیس نے شدید زخمی ملزم کو ہسپتال منتقل کر کے اس کے اہل خانہ کو بحفاظت نکال کر محفوظ علاقے میں منتقل کردیا۔ ملزم نوید مسیح کے گھر کے باہر مقدس اوراق بکھرے پڑے تھے۔ بس یہی اس شخص کا جرم بن گیا۔ کیا نوید مسیح کو نہیں پتا کہ لوگ اس کے گھر کے باہر اوراق بکھرے ہوئے دیکھیں گے تو ان کا کیا رد عمل ہوگا؟ لوگوں کو جیسے ہی بکھرے ہوئے اوراق دکھائے گئے انھوں نے مشتعل ہوکر پتھراؤ کرکے نوید کو زخمی اور اس کے بیٹے سلطان کی شوز فیکٹری پر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ بادی النظر میں نوید پر کسی نے کسی اور چیز کا غصہ نکالتے ہوئے اس کے گھر کے سامنے مقدس اوراق پھیلا دیے اور واویلا کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ جڑانوالہ میں کئی چرچوں کو ایسے ہی اقدام کے بعد نذر آتش کیا گیا تھا۔ اب سرگودھا میں یہ کسی ایک شر پسند اور شدت پسند کی کارروائی ہے جس سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہو رہی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے، خود عدالت بن جائے، خود فیصلہ کرے اور خود ہی سزا بھی دینے لگ جائے۔ یہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔ ایسے واقعات میں عوام کا جذبات میں آ جانا ایک فطری امر ہے لیکن کسی بھی صورت قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں جو ملزم کو کسی قسم کی رعایت نہیں دیتے۔ قوانین کی موجودگی کے باوجود وطن عزیز میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا تدارک اسی صورت ہو سکتا ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں میں اور عوامی سطح پر سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کرے۔ سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا پر مہم چلائی جائے۔ علمائے کرام بھی عوام میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری صورت میں شدت پسندی اور شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی جاری رہے گی جو عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو مسخ کرے گی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک قرار دینے کا باعث بن سکتی ہے۔
سرگودھا میں توہینِ مذہب کا مبینہ واقعہ
May 27, 2024