”یوم عاشور“ ”موبائل فون“ کی بندش۔ سخت سیکورٹی مشکوک افراد کی گرفتاریوں اور دہشت گردی کے خطرے میں بالآخر اختتام پذیر ہو گیا۔ حکومت کو یوم عاشورہ پرامن رکھنے کی سعی کرنے پر مبارکباد تو قوم کو بھی مبارک ہو۔ گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد ہماری زندگی کی ایک اور لازمی سہولت کی لوڈشیڈنگ کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ قوم ایک بار پھر پتھر کے دور میں پہنچ گئی۔
”یوم عاشور“ کے دن کی مناسبت میں ایک نئے عنصر کی شمولیت۔ چینلز پر ”یوم عاشور“ کے جلوسوں کی خبریں سنائی جا رہی ہیں تو ساتھ ہی ”موبائل فون سروس“ کی بحالی کی پٹی زیادہ نمایاں کرکے دکھائی جا رہی ہے۔ محرم الحرام کے آغاز میں بھی کئی مواقع پر مختصر وقفوں کے لئے ”موبائل فون“ بند کئے گئے مگر 9اور 10 محرم کو ”موبائل فونز“ دو دن کے لئے مکمل طور پر بند رہے۔ اس بندش کی وجوہات اسباب کچھ بھی ہوں۔ حکومتی موقف اپنی جگہ مگر دو دن کی معطلی نے جہاں پاکستان کو اربوں کی ”تھک“ لگائی۔ وہاں عام لوگوں کو بھی بڑے عذاب سے گزرنا پڑا۔ 9ویں محرم کو میرے گھر ایک عزیز تشریف لائے۔
جاتے ہوئے اپنا موبائل بھول گئے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ان کے دفتر گاڑی دوڑا دی کہ مبادا قیمتی موبائل کی گمشدگی پریشان نہ کر دے۔ ادھر گاڑی نکلی ادھر ”عزیز محترم“ واپس آ پلٹے۔ ہمارے بتانے پر انہوں نے بھی ہماری گاڑی کے تعاقب میں دوڑ لگا دی۔ اس طرح ایک عزیزہ کی بیٹی اپنے کس رشتہ دار کے گھر چلی گئی۔ 10ویں محرم کو والدین بیٹی کو لینے گئے تو معلوم ہوا کہ ”بیٹی“ تو ڈرائیور کے ساتھ گھر جا چکی ہے چونکہ گھر بند تھا ”والدین“ روزہ کی خریداری کے لئے بھی نکلے تھے مگر اب خوفزدگی سے بھاگم بھاگ گھر پہنچے کہ بیٹی گھر بند دیکھ کر گھبرا نہ جائے کیونکہ رابطہ جو ناممکن تھا۔ 9ویں محرم کو ایک گھر دعوت میں پہنچے تو میزبان خاتون نے قصہ سنایا کہ انہوں نے اپنے بھائی کو دعوت ڈرائیور کے ہاتھ ”خط لکھ“ کر بھیجی تھی۔ اس لئے قوم اب خط لکھا کرے کیونکہ پابندی کا سلسلہ رکنے والا نہیں۔ قارئین کرام کیا یہ ٹھیک ہے؟ ایک ایسی سہولت کو جو ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے لئے مذہبی تہوار اور ”خاص ایام“ میں بند کر دیا جائے۔ کیا ہمارے پاس یہی حل ہے کہ سہولت ہی بند کر دو۔ راستہ نکالنے کی بجائے ”گلی“ ہی بند کر دو۔ پہلے ”موٹر سائیکل“ پر ڈبل سواری کی پابندی لگتی تھی اب ”موبائل فونز“ بھی پابندی کی زد میں آ گئے۔ یہ طرفہ تماشا نہیں کہ یونہی کسی سہولت کے زیادہ عادی ہونے لگتے ہیں تو اس سہولت کو ہمارے لئے ”ایک سزا“ بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
”عہدِ طفل“ کے ایام یاد ہیں عید تہوار مل جل کر، محبت، بھائی چارے اور ”اللہ تعالیٰ“ کی رحمت۔ فضل و کرم کے سائے میں مناتے تھے نہ گھر سے اکیلے باہر نکلنے سے ڈر لگتا تھا نہ کوئی اجنبی خودکش بمبار معلوم ہوتا تھا۔ مساجد سماجی میل ملاپ اور آپسی رشتے بڑھانے کا گڑھ تھیں مگر دشمن نے پاکستان کو بارود کا ڈھیر بنا ڈالا ہے۔ اس وقت پوری دنیا دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے مگر کہیں بھی اس طرح کے طریقہ کار نہیں اپنائے جاتے۔ ہمارے ہاں ”بے روزگاری“ بڑھی تو ہم نے روزگار کے مواقع بڑھانے کی بجائے ”بی اے“ کا دورانیہ چار سال کر دیا۔ دریا خشک ہونا شروع ہوئے تو ڈیم بنانے کی بجائے، پانی کا اپنا حصہ لینے کی بجائے انڈیا سے بامقصد، حل طلب مسائل پر دوٹوک بات چیت کی بجائے آزادانہ تجارت، باہمی رابطوں کو بلاروک ٹوک پذیرائی بخشنا شروع کر دی۔ ”گیس بجلی“ کی رسد طلب کے مقابلہ میں کم ہوئی تو پیداوار بڑھانے یا ”متبادل ذرائع توانائی“ تلاش کرنے کی بجائے ”بجلی گیس“ کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی۔
کیا ہمارے تمام مسائل کا حل ”پابندی“ ہی ہے۔ ”اولاد“ نافرمانی کرے تو ”ماں باپ“ بچوں پر کمرے اور گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ خانگی مسائل ہوں یا مذہبی فرقہ واریت، ہر چیز بندشوں کے حصار میں گھری ہوئی ہے۔ ہمیں اس فعل کو کیا بدل نہیں دینا چاہئے؟ ہمیں ضرورت ہے ایسی سوچ پر پابندی کی جو ہماری اقتصادی حالت میں بگاڑ کا سبب بنے۔ ہماری نجی زندگیوں کو مضطرب کرے۔ ہم فرائض کی ادائیگی میں نیک نیت ہونے کی بجائے اپنے حقوق کی کٹوتی پر فوراً راضی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارا چلن یہی رہنا ہے۔ پابندی ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے تو پھر ان عادتوں، لوگوں مشاغل پر بھی پابندی عائد کر دینی چاہئے جو اپنے فرائض نبھانے میں ناکام رہے چاہے وہ کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہماری سوسائٹی کو اخلاقی قدروں سے محروم کرنے والے عوامل پر پابندی بھی ضروری ہے۔ محترم قارئین محض سہولتوں پر ہی نہیں فرائض سے کنارہ کش کرنے والوں کو بھی اس ذیل میں لایا جائے۔ پابندی لگانا ہے تو ”بے محابا ٹی وی چینلز پر لگائیے۔ بے تکے ٹاک شوز پر لگائیے جو قوم کو گروہوں میں بانٹ رہے اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کر رہے ہیں۔ شور مچاتے، جرائم پھیلاتے، قوم، حکومت میں خلیج کا باعث بننے والے میڈیا ایج کی تباہی پر پابندی لگائیے۔ خیر قوم کو چاہئے کہ وہ ”روایتی طریقہ محبت“ خط لکھنے کو فروغ دیں کیونکہ اصل کی طرف مراجعت ہی ہمیں مسائل سے بچا سکتی ہے۔