شاہدرہ میں کھانسی کا زائد المیعاد شربت پینے سے 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔
اس سے بہتر تو کھانسی ہی تھی، چل پھر تو رہے تھے۔ اب کھانسی کیساتھ ساتھ جان بھی گئی۔ ہم لوگ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ عوام بیچارے ”نیم حکیم خطرہ جاں“ سے بھی تو ڈرتے ہیں۔ میڈیکل سٹوروں پر زائد المیعاد دوائیاں ایسے ہی ملتی ہیں جیسے فٹ پاتھوں پر زائد العمر کتابیں رکھی ہوتی ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر تو اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ چوہے اور کتے مار دوائیاں انسانوں کو دی جاتی ہیں، شربتوں میں الکحل ملا کر سرعام فروخت کیا جا رہا ہے۔ نشئی نشہ آور ادویات اور ٹیکے سرنج ہی روشنی میں خریدتے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں؟ گلی محلوں میں ریوڑیوں کی طرح موت بانٹی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں مشیرِ صحت کی آجکل اپنی صحت خراب ہے یا کسی اور کام میں مشغول ہیں۔ ہسپتالوں میں صفائی کا انتظام دیکھ کر تندرست انسان بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہسپتالوں میں لوٹ مار پر پابندی تو لگائی ہے، پارکنگ فری کرنا انکا بڑا کارنام ہے لیکن شیخ زائد ہسپتال میں تو اب بھی پارکنگ 10 روپے لیکر مریضوں کے لواحقین کو لوٹا جا رہا ہے۔ غریب آدمی دس مرتبہ ہسپتال آئے گا تو 100 روپے پارکنگ کیلئے لازمی لیکر آئے گا۔ یہ تو لاہور میں مشیرِ صحت سلمان رفیق کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے دوسرے شہروں کو آپ چھوڑیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
کالم نگار اور صحافی ارد شیر کا¶س جی چل بسے۔
کا¶س جی صحافتی دنیا اور کراچی سوسائٹی کا ایک مشہور نام تھے‘ انکے کالموں میں حکمرانوں کی کرپشن پر نڈر‘ تنقید اور غلط کو غلط ہی کہنا اور اکثر اوقات کافی تلخی سے کہنا‘ انکی پہچان سمجھی جاتی تھی۔جہاں اسکی وجہ سے انہوں نے کئی طاقتور دشمن بھی بنائے‘ وہیں عام پاکستانیوں کو انکے کالم میں ہر ہفتے اپنے دل کی بھڑاس پھڑنے کو ملتی اور کرپشن‘ لوٹ مار اور قتل و غارت کےخلاف انکا شعلے اگلتا قلم اس مقصد کیلئے مشہور ہوا ۔ عرصہ گزرا انکی کچھ ہی عرصے کیلئے نوائے وقت سے بھی وابستگی رہی‘ لیکن انہوں نے زیادہ عرصہ ڈان میں گزارا۔ بھارت کی بجائے انہوں نے پاکستان میں رہنے اور یہیں پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی۔ کراچی کے حالات خراب ہونے پر چند رفقاءنے بیرون ملک نقل مکانی کرنے کا مشورہ دیا تو کاﺅس جی نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا ”میں کیوں جاﺅں؟ یہ میرا گھر ہے‘ آخر میں اسے کیوں چھوڑوں؟“ وہ اپنے کالموں میں کہتے تھے کہ مجھے یہ قائداعظمؒ کا پاکستان نہیں لگتا، جس مقصد کیلئے اسے بنایا تھا وہ مقصد کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ دراصل وہ ایک سیکولر پاکستان دیکھنا چاہتے تھے‘ اور پارسی خاتون کو دائرہ اسلام میں لا کر شادی کرنے کی وجہ سے ان سے خوش نہیں تھے بہرحال وہ ایک محبِ وطن صحافی تھے، انکے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نظر نہیں آ یا۔ان جیسے کم ہی لوگ آتے ہیں‘ انکے قلم اور پاکستان کے حق میں انکی آواز کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
لاہور میں صارفین کو پورا ہفتہ ”رگڑا“ دیا گیا، گذشتہ روز سے پھر سی این جی مالکان کی ہڑتال جاری رہی۔
سی این جی مالکان کا دعویٰ ہے کہ ہمیں 12 روپے فی کلو خسارہ ہو رہا ہے۔ عقل مند آدمی تو خسارے کا کاروبار نہیں کرتا ۔ یہ کون سر پھرے ہیں جو نقصان کے باوجود سی این جی کا کاروبار کر رہے ہیں، جس کو نقصان ہو رہا ہے وہ سی این جی سٹیشن کو بند کر دے، گن پوائنٹ پر تو کوئی ان سے کاروبار نہیں کروا رہا۔ ایک شخص ملازمت کیلئے انٹرویو دینے گیا، امیدوار نے تمام سوالات کے درست جواب دئیے، آخر میں ایک ممتحن نے پوچھا ”یہ بتا¶! گاپو جی گاپو جی گم گم کا مطلب کیا ہے؟“ امیدوار نے افسردہ لہجے میں جواب دیا ”جناب اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ حضرات مجھے ملازمت نہیں دینا چاہتے۔
تو جناب صارفین کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ موجودہ قیمت پر سی این جی مالکان سی این جی فروخت کرنا نہیں چاہتے اب وہ طرح طرح کے بہانے تراش رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اوگرا اور سی این جی ایسوسی ایشن کو معاملات طے کرنے کا کہا تھا لیکن دونوں طرف سے کوئی بھی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا جبکہ عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس وقت بہترین طریقہ¿ حل تو یہی ہے کہ غیر قانونی سی این جی سٹیشنوں کے لائسنس منسوخ کر کے سپریم کورٹ خود قیمت مقرر کرے تاکہ عوام کو صرف حقیقی قیمت ادا کرنا پڑے اور جگا ٹیکس سے نجات مل جائے۔
٭۔٭۔٭۔٭
بھارتی فلموں کا پاکستانی سنیما گھروں میں ریکارڈ بزنس۔
پاکستانی فنکار بھارت جائیں تو ان پر ٹماٹر اور گندے انڈے پھینکیں جائیں، جب وہ آئیں تو ہمارے لوگ پھول برسائیں، یہ سب کچھ نہ صرف بھارتی فلموں کا بلکہ انہی لوگوں، یعنی ہم عوام کا کیا دھرا ہے جنہوں نے ٹکٹ خرید کر ان بھارتی فلموں کو ریکارڈ بزنس تک پہنچایا ہے۔ پاکستان کی کوئی فلم بھارت کے کسی بھی سنیما گھر میں نہیں لگ سکتی، وہاں لگنی تو دور کی بات پہلے تو کام بنانے کا ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری ایک مُردہ گھوڑے کی طرح ہے۔ اسے مُردہ گھوڑا بنایا بھی بھارتی ثقافتی یلغار نے ہے۔ بہرحال یہ جو کچھ ہو رہا ہے چاہے حکومتی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ لیکن اصل پھانسی کا پھندہ تو ہم نے اپنی انڈسٹری کو خود پہنایا ہے۔ بھارتی فلمیں یہاں بزنس کر رہی ہیں جس کے باعث انکی معیشت مستحکم اور ہماری کھوکھلی ہو رہی ہے۔ اب آپ میں کتنا جذبہ حب الوطنی ہے کہ آپ کروڑوں بھارتی روپوں کے بجٹ والی فلم سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا کسی بے چارے پاکستانی پروڈیوسر کی قرضے لے لےکر بنائی گئی معمولی سی پیشکش پر اپنا قیمتی وقت صرف کرنے کو تیار ہیں یا نہیں؟ آخر ان بھارتی فلموں نے ریکارڈ بزنس جنّات کسٹمرز سے تو نہیںکیا۔ ہماری حکومت جانے یا نہ جانے اس بھارتی فلم بازی سے پاکستان میں بھارتی کلچر کو فروغ دے رہی ہے۔ بھارت کون ہے کیا ہے؟