ريکوڈک گولڈ مائنز کيس ميں ٹيتھيان کمپنی کے وکيل خالد انورنے دعوی کیا ہے کہ ریکوڈیک معاہدہ بلوچستان حکومت کی خواہش اوررضامندی سے ہوا۔

چيف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی ميں تين رکنی بنچ نےکیس کی سماعت کی۔ ٹيتھيان کمپنی کے وکيل خالد انور نے دلائل ديتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت نے اپنے مفاد ميں معدنيات کی تلاش کا علاقہ وسيع کيا جبکہ کمپنی کو تیرہ ہزار کے بجائے چوالیس ہزار کلوميٹر کے رقبے پر تلاش کا ٹھيکہ ديا گيا۔وکيل کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان سونے اور تانبے کی تلاش ميں خود ناکام ہو چکی تھی، کمپنی نے دس سال کی محنت اور بھاری سرمايہ کاری سے ذخائر کا کھوج لگايا۔جسٹس گلزار نےریمارکس دیئےکہ معاہدے ميں ترميم کرتے وقت بلوچستان حکومت فريق نہيں تھی، دستاويز پر گورنر کی مہر بھی نہيں لگی ہوئی، کمپنی کے وکيل نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے اس دستاويز سے کبھی انکار نہيں کيا۔ چيف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ريکارڈ پرايسی کوئی چيز موجود نہيں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ گورنر سے باضابطہ منظوری لی گئی۔ پی سی او کے تحت گورنر اس وقت کے چيف ايگزيکٹو کی ايڈوائس کا پابند تھا، کمپنی کے وکيل نے کہا کہ ترميم کے حوالے سے ريکارڈ منگوا ليا جائے،سب کچھ ثابت ہو جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ ٹيتھيان کے پاس اصل دستاويزات پہلے پہنچ جاتی ہيں لیکن متعلقہ صوبائی محکمے کو بعد میں ملتی ہیں جبکہ انہوں نے بھی کئی نقول کمپنی سے حاصل کی ہیں۔ يہ کاغذات سامنے لائيں جائے تو ٹيتھيان کمپنی کے خلاف الگ مقدمہ بنتا ہے۔اس موقع پر چيف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اس ترميم پر انحصار کر رہے ہيں لہذا اس کی درستگی کا جائزہ لينا ضروری ہے،بعد ازاں عدالت عظمی نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن