مکتوب کٹھمنڈو .........جاوید صدیق
اٹھارویں سارک سربراہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں جہاں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں بھارت کے ساتھ کسی تنازعہ کا براہ راست تذکرہ نہیں کیا‘ البتہ وزیراعظم نے سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے سارک ممالک میں اعتماد بڑھانے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر زور دیا‘ وہاں بھارتی وزیراعظم نے سارک سربراہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں بھارت کے بڑے ہونے اور علاقے میں اپنی چودھراہٹ کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سارک ملکوں کی ترقی کے لئے بھارت کی طرف سے دیئے گئے ترقیاتی فنڈز کا ذکر کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سارک کے تمام ممالک سے اپنے تعلقات اور بھارتی امداد کا تذکرہ کیا‘ لیکن انہوں نے پاکستان کا ذکر نہیں کیا۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں ”ماضی کے سایوں سے نکل کر آگے بڑھنے کا مشورہ“ دیا اور پھر اگلی سانس میں انہوں نے دہشت گردی کا موضوع چھیڑ دیا اور پھر دہشت گردی کو روکنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ نریندر مودی نے سارک سربراہ کانفرنس میں انگریزی زبان میں خطاب کیا لیکن پھر انہوں نے انگریزی زبان چھوڑ کر ہندی میں خطاب شروع کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت اس خطے کے عوام کی بھلائی اور فلاح چاہتا ہے۔ نریندر مودی نے انفراسٹرکچر کو اپنی ترجیح قرار دیا اور کہا کہ وہ نیپال کے ساتھ سڑک کے راستے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تمام سارک ملکوں کے ساتھ سڑک اور ریل کے رابطے استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ سارک سربراہ کانفرنس میں چین کا وفد بھی بطور آبزرور شریک تھا۔ چینی نائب وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین سارک ملکوں کو 30 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے لیکن چینی وزیر خارجہ نے وہ لہجہ اختیار نہیں کیا جو بھارتی وزیراعظم کا تھا۔ بھارتی صحافی یہاں مسلسل یہ کہتے رہے کہ چین کا سا¶تھ ایشیا سے کیا تعلق ہے؟ دراصل بھارت اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر چین سارک کا رکن بن جاتا ہے تو بھارت کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ ایک جانب تو سارک تنظیم میں برابری کی سطح پر ترقی اور خوشحالی کی بات کی جا رہی ہے اور دوسری طرف بھارت علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ایک توقع یہ کی جا رہی ہے کہ جمعرات کے روز جب اس سٹریٹ میں سارک سربراہ غیررسمی طور پر ملیں گے تو نیپال جو میزبان ہے وہ بھرپور کوشش کرے گا کہ نواز شریف اور نریندر مودی کی چند منٹ تک ملاقات ہو جائے کیونکہ ان دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات نہ ہونے سے سارک کی اٹھارہویں کانفرنس ناکام تصور ہو گی۔