قتال پر مبنی انقلاب کی خواہش

Nov 27, 2014

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کا عالمگیر اجتماع بخیرو خوبی اختتام پذیر ہوگیا۔اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سابق امیر محترم منور حسن نے بڑے صاف اور واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ”قتال فی سبیل اللہ کے بغیر ہمارے اس معاشرے میں انقلاب نہیں لایا جاسکتا“۔ انہوں نے اس بیان کی مزید شرح کرتے ہوئے سومنات کا حوالہ دیا کہ ”ہم نے ابھی کئی سومنات گرانے ہیں“ یعنی جس طرح سلطان محمود غزنوی نے افغانستان سے آکر ہندوستان میں ہندوﺅں کے سومنات مسمار کئے اور یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اسی طرح ہمیں بھی پاکستان کے موجودہ نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کیلئے قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے سومنات مسمار کرنے ہونگے۔ منور حسن کوئی عام آدمی کا نام نہیں وہ پاکستان کی ایک بڑی مذہبی اور سیاسی تنظیم کے مرکزی امیر رہے ہیں اور اب بھی اس جماعت کی مرکزی شوریٰ کے سینئر ممبر ہیں۔ انہوںنے گذشتہ سال اپنی امارت کے دوران 40 ہزار بے گناہ مسلمان شہریوں کے اعلانیہ قاتل حکیم اللہ محسود کو شہید جبکہ افواج پاکستان کے شہیدوں کیلئے نہایت غیر مناسب الفاظ استعمال کئے تھے۔ میں اور میرے جیسے کئی دین کے طالب علم اہل فکر و نظر اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ کم از کم جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودیؒ، خدمت دین اور اصلاح معاشرے کیلئے ایسے تصورات نہیں رکھتے تھے۔

وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ہماری تاریخ قتال کی تاریخ نہیں اصلاح، تذکیر اور تعلیم و تربیت کی تاریخ ہے۔ ہمارا دین مار دھاڑ اور قتل و غارت گری پر نہ صرف یقین نہیں رکھتا بلکہ اسکی شدید مذمت کرتا ہے۔ رہا جہاد فی سبیل اللہ کا تصور تو اسکی شرائط، قوانین اور مختلف صورتیں معروف ہیں اور ہر پڑھا لکھا شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول اکرم نے خواہ مخواہ تلوار کا استعمال دشمنوں کیلئے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ چہ جائیکہ مسلمانوں کیلئے قتال کی ترغیب دی جائے۔
میں جماعت اسلامی کی موجودہ اور سابقہ قیادت سمیت دیگر ارباب علم و فکر کی خدمت میں بڑے ادب سے گزارش کرتا ہوں کہ معاشرے میں قتال فی سبیل اللہ کی دعوت، فساد فی الارض کی دعوت ہے۔ قتال کے ذریعے حکومتوں کے تختے الٹنے کا کام تو طالبان کا فلسفہ ہے اور حال ہی میں عراق اور شام کو دولت اسلامیہ بنانے کیلئے ”داعش“ نے یہی طریقہ اختیار کررکھا ہے جسکے نتیجے میں لاکھوں مسلمان موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جس کی مذمت اس بار خطبہ حج میں بھی ضروری سمجھی گئی اور انہیں خوارج العصر قرار دیا گیا۔ خدارا اسلام کی تعلیمات امن و محبت کے فلسفے کو سمجھیں۔ صوفیائے اسلام کی خدمت کے منہج اور دور رس نتائج و اثرات کو بھی دیکھیں اور جہاد و قتال کے فتوے لگا کر ”اسلامی انقلاب“ بپا کرنیوالوں کے اثرات اور رد عمل بھی ملاحظہ کریں۔ آج پوری دنیا میں مسلمان اور دہشت گرد لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ مسلمانوں نے خود اپنی حرکتوں سے غیروں کو یہ کہنے کا موقع دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی ملت اسلامیہ کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا گذشتہ چند عشروں میں دہشت گردی کا لیبل لگنے سے ہوا۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اس قسم کے غیر واضح فتوے اور تقاریر ان لوگوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں جو پوری دنیا میں اسلام کے نمائندہ ہیں۔ آج پاکستان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں ایک بڑی مشکل دہشت گردی ہے۔ جس نے 60 ہزار سے زائد فوجی اور سول شہریوں کو نگل لیا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے پاکستان کی سرحدیں غیر ملکی حملہ آوروں کی زد میں ہیں جن کے ساتھ افواج پاکستان قربانیاں دے رہی ہے مگر سراج الحق اس ساری دفاعی کاوش کو ڈرامہ کہہ رہے ہیں پھر مینار پاکستان پر جن حکمرانوں کو انہوں نے ظالم، جابر اور منافق کہا اور ان کیخلاف اعلان جہاد فرمایا اسی شام انکے استقبالیہ میں مہمانوں کا قافلہ لے کر بھی پہنچ گئے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی سیاسی رہنماﺅں کی طرح قول و فعل کے گہرے تضاد کا شکار ہے۔

مزیدخبریں