وزیراعظم کا طرز تغافل اور ناراض ساتھیوں کی ”تدبیریں“

شہزاد چغتائی
سندھ میں مسلم لیگ کے ناراض رہنماﺅں نے الائنس بنا لیا اور متحد ہو کر حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کا اعلان کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگیوں نے نیا اتحاد تو بنا لیا لیکن نئی صف بندی کی راہیں متعین نہیں کر سکے اب تک یہ طے نہیں ہوا کہ ناراض رہنماﺅں کی منزل کون سی ہے۔ یہ سینئر سیاستدان بیک وقت پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) پر برہم ہیں ۔ پہلے خبر آئی تھی کہ نیا الائنس پیپلز پارٹی کے خلاف بنا ہے۔ پھر یہ بازگشت بھی سنائی دی کہ مسلم لیگ (ن) کے یہ رہنما وزیراعظم نواز شریف کی سندھ میں پالیسیوں سے خوش نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وزیراعظم افہام و تفہیم ختم کر کے پیپلز پارٹی کا جینا حرام کر دیں۔ لیکن پیر کو اس وقت نئی صورتحال پیدا ہو گئی جب سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس کی بریفنگ کے دوران مسلم لیگ سے ناراض رہنماﺅں نے کہا کہ ان کا اتحاد کسی کے خلاف نہیں۔ جس کے ساتھ ہی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا کہ آیا اتحاد ملک گیر ہو گا یا اس کی سرگرمیاں محض صوبائی سطح تک محدود رہیں گی۔ اجلاس میں سندھ کے سابق گورنر ممتاز بھٹو موجود نہیں تھے جس پر یہ سرگوشیاں ہوئیں کہ الائنس کے دائرہ کار کا تعین ممتاز بھٹو کے آنے کے بعد ہو گا۔ نئے اتحاد میں چار سابق وزرائے اعلیٰ، ایک وفاقی وزیر صدر الدین شاہ شامل ہیں جو کہ نواز شریف کی اتحادی جماعت فنکشنل مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی ہیں۔ اتحاد کا اختتامی اجلاس صدرالدین شاہ کی رہائش گاہ پر ہوا تھا اور یہ چینلوں پر اس دن کی بریکنگ نیوز تھی ،جس کے بارے میں قبل ازیں بعض شرکاءآف دی ریکارڈ بات چیت میں دعویٰ کر چکے تھے کہ پیر پگارا ہمارے ساتھ ہیں اور انہوں نے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس اجلاس میں وفاقی وزیر صدرالدین شاہ پر زور دیا گیا کہ وہ کابینہ سے مستعفی ہو جائیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کو شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اجلاس میں شرکت کی بجائے وفاقی وزیر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ وزیراعظم بھجوا دیا ۔ استعفیٰ میںمطالبہ کیا گیا کہ ان کی وزارت میں مسلم لیگ (ن) کی ایک اہم شخصیت کی مداخلت ختم کر کے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے چیئرمین کو ہٹا دیا جائے۔ غلام مرتضیٰ جتوئی کا دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر میں ہوں لیکن یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا ایم ڈی کسی اورکے احکامات مانتا ہے۔ اس کی ملازمت میں غیر قانونی توسیع بھی کر دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کی عدم شرکت کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ ان کے نئے الائنس کے رہنماﺅں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیک وقت رابطے ہیں اور ان کے بھائی عاقب جاوید نے گزشتہ دنوں لندن میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی۔جس میں معاملات طے پا گئے تھے اور آصف علی زرداری نے مرتضیٰ جتوئی کو خاندان کے ساتھ پیپلز پارٹی میں بشرط ِ شمولیت سندھ میں دو وزارتوں کی پیشکش کی تھی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) نے مرتضیٰ جتوئی کو ٹکا سے جواب دے دیا اورکہا کہ وزیراعظم کو وزارت میں مداخلت کا حق ہے۔ سندھ میں وزیراعظم سے ناراض بعض رہنماﺅں کی خواہش ہے کہ وزیراعظم پیپلز پارٹی کے رومانس ختم کریں اور فرینڈلی اپوزیشن کو خیرباد کہہ دیں لیکن وہ وزیراعظم نواز شریف کی مجبوریوں سے شاید آگاہ نہیں ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبے اب اپنے معاملات میں آزاد ہیں پھر بھی پیپلز پارٹی وزیراعظم کو سندھ آمد پر پروٹوکول دیتی ہے۔ نئے اتحاد میں شامل سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ایسے رہنما ہیں جو کم کم ناراض ہوتے ہیں اور ان کی مسلم لیگ کے ساتھ برہمی کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ سلیم ضیائ، نہال ہاشمی، اسمٰعیل راہو‘ علی اکبر گجر‘ راجہ انصاری اور زین انصاری کو چھوڑ کر سندھ میں شاید ہی کوئی ایسا رہنما ہو گا جوکہ وزیراعظم نواز شریف سے خوش ہو وزیراعظم نواز شریف کا انداز تغافل حیران کن ہے۔ ممکن ہے وہ ساتھیوں کو مناتے مناتے تھک گئے ہوں اور عاجز آ گئے ہوں سندھ میں نئے اتحاد اور نئی مسلم لیگ کی تشکیل کی تیاریوں پر مسلم لیگ کے سینئر رہنماﺅں کو سخت تشویش ہے اوربغاوت پر آمادہ ساتھیوں کو واپس لانے کیلئے زین انصاری سرگرم ہو گئے ہیں اور انہوں نے 28 نومبر کو مسلم لیگ ہاﺅس کارساز میں اجلاس طلب کر لیا ہے۔ جس میں پارٹی کے سرکردہ رہنما شرکت کریں زین انصاری نے دوستوں کو منانے کیلئے رابطے کئے ہیں۔ زین انصاری نے کہا کہ نواز شریف کے دشمنوں کے عزائم ناکام بنا دیں گے اور وہ پارٹی میں دراڑیں نہ ڈال سکیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ناخوش لیڈروں کے تحفظات نواز شریف تک پہنچا دیئے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ چار وزراء اعلیٰ کا اتحاد بنیادی طور پر تو پیپلز پارٹی کے خلاف ہے لیکن پیپلز پارٹی اس اتحاد کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہتے ہیں مجھے کوئی ہٹانا چاہتا ہے تو تحریک عدم اعتماد لے آئے انہوں نے الزام لگایا کہ لیاقت جتوئی دو تین جماعتیں بدل چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا مو¿قف ہے قائم علی شاہ کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں پہلے ان کے پارٹی کے اندر سازشیں ہو رہی تھیں اور وزارت علیٰ کے امیدوار سر ابھار رہے ہیں اب ان کے سابق ہم منصب چیلنج کر رہے ہیں۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹرارباب رحیم نے ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ سندھ کی تقسیم کے علاوہ ایم کیو ایم سے ہر مسئلہ پر بات ہو سکتی ہے لیکن ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں سیز فائر ہوگیا ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان گاڑھی چھن رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی کی افواہیں روز اُڑتی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک ہوگئیں اور دونوں جماعتوں کے رہنماﺅں نے عمران خان کے خلاف تقاریر کیں۔ لاڑکانہ میںعمران خان کے جلسہ عام کو پیپلز پارٹی نے دل پر لے لیا ۔دونوں جماعتوں کے درمیان بات بڑھنے کی ایک وجہ سندھ اسمبلی میں عمران خان کے خلاف منظور کی جانے والی ایک قرارداد تھی جس میں عمران خان کو سندھ کے عوام کو غلام قرار دینے پر مذمت کی گئی۔ لاڑکانہ جلسہ عام کے بعد پیپلز پارٹی کے وزراءکئی دن تک عمران خان پر برستے رہے اور انہوں نے بیانات اورپریس کانفرنسوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ پیپلز پارٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، سیاسی حلقوں کو اس بات پر حیرت ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی کی کئی وجوہات ہیں لیکن سیاسی حلقے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اگست کے بعد پہلی بار طیش میں آ گئے ہیں۔ ایک جانب پیپلز پارٹی نے یہ موقف اختیار کیا تحریک انصاف لاڑکانہ میں جلسہ نہیں کر سکی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا مو¿قف ہے کہ ان کو لاڑکانہ میں جلسہ عام کی اجازت نہیں ملی اوررکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ لاڑکانہ میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے قوت کے مظاہرے کے بعد یہ کراچی کے سیاسی حلقوں میں جلسہ عام موضوع بحث بن گیا پیپلز پارٹی نے جلسہ کو ناکام قرار دیدیا اورکہا کہ لاڑکانہ میں قوت کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا کہ جلسہ لاڑکانہ سے بہت دور علی آباد میں ہوا جو کہ ایک ظالم وڈیرے کی جاگیر ہے۔ بعض حلقے عمران خان کے جلسہ عام کو تازہ ہَوا کا جھونکا قرار دے رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ عمران خان پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے لاڑکانہ آ کر پیپلز پارٹی کو چیلنج کیا۔ غیر جانبدار مبصرین تحریک انصاف کی لاڑکانہ میں پیشرفت کو معمول کا اجتماع قرار دے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کی بوکھلاہٹ پر بھی حیران ہیں۔ وہ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی عمران خان سے کیوں خوفزدہ ہے لاڑکانہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کو کراچی آ کر خاص طور پر پریس کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پریس کانفرنس میں موجود صحافی سندھ کے وزراءپر ناراض تھے اور شرجیل میمن اور نثار کھوڑو کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ عمران خان کو اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔ بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کےلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ لیکن ایسا ہی تبصرہ ہے کہ جیسے پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کہہ رہی ہے کہ لاڑکانہ کے جلسے میں چند ہزار لوگ تھے۔ لاڑکانہ عمران خان کیلئے نیا نہیں ہے وہ یہاںپرندوں کے شکار کیلئے آتے رہے ہیں، اس بار وہ سیاسی شکار کیلئے آئے ۔ کپتان کی مہم جوئی کیا رنگ لائے گی یہ تو وقت بتائے گا لیکن عمران خان سندھ کیلئے جارحانہ حکمت عملی کے ذریعے قوم پرستوں اورناراض جیالوں کو اپنے ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کے پاﺅں تلے زمین کھینچنا چاہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن