ہندوﺅں کے تباہی و بربادی کے دیوتا ”شِو“ کے نام پر بھارت کی دہشت گرد تنظیم ”شِو سینا“ (شِو کی فوج) کا مہاراشٹرا کا انتہا پسند ہندو وزیرِ ماحولیات رام داس انتہائی جاہل ہے کہ جِس نے بھارت کے فلمی اداکاروں دلیِپ کمار، شاہ رُخ خان اور عامر خان سے ناپسندیدی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ”ہم نے اِن مسلمان اداکاروں کو دودھ پِلا کر پالا لیکن یہ سانپ نکلے“۔
”ناگ دیوتا کی توہین“
”سانپ“ اُردو زبان کا لفظ ہے جو ہندو وزیر نے مسلمانوں کو سمجھانے کےلئے استعمال کِیا ہے۔ ہندی زبان میں سانپ کو ”سَرپ“ اور ایک خاص نسل کے سانپ کو ناگ کہتے ہیں، جِس کا مُنہ انسان جیسا اور دُم سانپ جیسی ہوتی ہے۔ ہندو قوم ناگ کو دیوتا سمجھ کر بھادوں مہینے کی پانچوِیں اندھیری رات میں اُس کی پُوجا کرتی ہے۔ اِس تہوار کو ”ناگ پنچمی“ کہا جاتا ہے۔ دلیپ کمار (دراصل یوسف خان) شاہ رُخ خان اور عامر خان کی اُن کے فنّ ِاداکاری کی وجہ سے بھارت میں اُن کے چاہنے والے سالہا سال سے پُوجا کرتے ہیں۔
بعض ہندو ہر سانپ کو دیوتا سمجھ کر اُس کی پُوجا کرتے ہیں۔ اُسے دُودھ بھی پلاتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ”گُگا چوہان“ سانپوں کا پِیر تھا۔ اُس کے عقیدت مند سانپ زمین پر ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر اُس کےلئے بِستر بن جاتے تھے لیکن ایک اڑنے والے سانپ نے ”گُگا پِیر“ کے ماتھے پر کاٹا تو اُس کی موت ہو گئی۔ ساون کے مہینے میں ”گُگا پنچمی“ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مُتعصب اور انتہا پسند ہندو وزیر رام داس نے دلیپ کمار، شاہ رخ خان اور عامر خان کو سانپ کہہ کر ”ناگ دیوتا“ کی توہین“ کی ہے۔ ”شِو دیوتا“ کا صفاتی نام ”ناگ بُھوشن“ ہے اُن کی تین آنکھیں ہیں۔ اگر اُنہوں نے اپنی تیسری آنکھ سے ”شِو سینکوں“ کو مسلمان اداکاروں کو سانپ/ ناگ کا درجہ دیتے ہُوئے دیکھ لِیا تو وہ کتنے ناراض ہونگے؟ پنجابی کے معروف شاعر سیّد وارث شاہ نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا....
”جے کر منتر کِیل دا، نہ آوے
اَیویں سُتڑے ناگ نہ چھیڑےے نی“
یعنی اگر سانپ کو قابو کرنے کا منتر نہ آتا ہو تو سُوے ہُوئے سانپ کو نہیں چھیڑنا چاہئیے۔
عمران خان اور ”عشقِ سیاست“
25 نومبر کو جناب عمران خان نے لاہور میں "Youth Convention" (نوجوانوں کے کنونشن) سے خطاب کِیا۔ خبر کے مطابق ”خان صاحب کی تقریر سے پہلے جب نوجوانوں کی نعرہ بازی، بد نظمی اور شور شرابہ حد سے بڑھ گیا۔ خان صاحب تقریر کےلئے ڈائس پر آئے تو شور شرابہ اور بڑھ گیا تو انہوں نے کہا ”میرے پانچ گننے تک خاموشی نہ ہُوئی تو مَیں یہاں سے چلا جاﺅں گا“۔ خاموشی ہونے پر عمران خان نے "Youth" سے کہا آپ نے 126 دِن کے دھرنے سے بھی کچھ نہیں سِیکھا۔ لگتا ہے کہ....
”ابھی عِشق کے، امتحاں اور بھی ہیں“
جناب عمران خان نوجوانوں کو کیا یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ عِشق کا ایک اور امتحان پاس کرنے کےلئے مزید دھرنے دینے کےلئے تیار رہیں؟ یعنی ”عِشق سیاست“ کو سمجھنے کےلئے اگر حضرت داغ دہلوی کے اِس شعر میں لفظ ”مجازی“ کے بجائے ”سیاست“ جڑ دِیا جائے تو وہ یوں ہو گا....
”مَیں گنہگار، اگر عشقِ سیاست ہے گناہ
مَیں خطا وار، اگر اِس کو خطا کہتے ہیں“
مرزا غالب چونکہ سیاست دان نہیں تھے۔ اِس لئے انہوں نے کئی بار محبوب کے کُوچے میں دھرنا دئیے بغیر عِشق کے کئی امتحان پاس کر لئے تھے اور آخر اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ....
”کہتے ہیں جِس کو عشق خلل ہے دماغ کا“
ہر نوجوان کا ”عِشق“ کا اپنا تجربہ ہوتا ہے۔ جناب عمران خان نے بظاہر دو خواتین سے عِشق کِیا، پھر دھرنا دئیے بغیر اُن سے باری باری "Arranged Marriage" کر لی۔ اپنی تقریروں کو لفظوں سے سجانے والے جناب شاہ محمود قریشی نے جناب عمران خان کو کبھی مرزا غالب کا یہ شعر کیوں نہیں سنایا کہ....
”عِشق نے غالب نکّما کر دِیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے“
خادمِ اعلیٰ پر دو سو روپے اُدھار؟
مَیں نے 1973ءمیں لاہور سے اپنا اخبار روزنامہ ”سیاست“ جاری کِیا۔ جناب بھٹو وزیر اعظم تھے اور مولانا کوثر نیازی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات۔ اکتوبر 1975ءمیں وفاقی حکومت کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ پنجاب نواب صادق حسین قریشی نے ”سیاست“ بند کر دِیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) نے 28 دِن کی روزانہ سماعت کے بعد ”سیاست“ بحال کر دِیا لیکن وفاقی اور پنجاب حکومت کے سرکاری اشتہارات مارچ 1976ءتک بند رہے۔ میرے والد صاحب (تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکُن) رانا فضل محمد چوہان سرگودھا سے لاہور آئے تو مَیں نے انہیں بتایا کہ اب میرا ذریعہ آمدن صِرف اُدھار ہے اور اُدھار بھی بہت زیادہ چڑھ گیا ہے۔ آپ میرے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری مشکلیں آسان کر دیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ”پُتّر! اُدھار مِلنا بند تے نئیں ہویا؟“ مَیں نے کہا کہ ”جی نئیں!“ انہوں نے کہا کہ فیر فکر دی کِیہ لوڑ اے؟“ مَیں نے فکر کرنا چھوڑ دِیا تو پاکستان پیپلز پارٹی میں میرے دو دوستوں (مرحومین) جناب خورشید حسن مِیر اور جناب تاج محمد لنگاہ کی سفارش پر میرے اخبار کے سارے واجبات مِل گئے اور اشتہارات بھی بحال ہو گئے اور مَیں نے اُدھار دینے والے رشتہ داروں اور دوستوں کا اُدھار واپس کردِیا۔
کل (26 نومبر) کے اخبارات میں خبر تھی کہ ”خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں پہلی سیاحتی ڈبل ڈیکر بس سروس کے افتتاح کے بعد دوسو روپے کا ٹکٹ خرید کر بس کے اوپر والے حِصّے میں سفر کِیا“ پھر انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ”مَیں نے خواجہ حسّان سے دو سو روپے اُدھار لئے تھے جو مَیں نے انہیں واپس بھی کرنا ہیں“ خواجہ حسان بھی خادمِ اعلیٰ کی طرح کشمیری ہیں اور علاّمہ اقبالؒ بھی کشمیری تھے جنہوں نے اپنی ایک نظم ”ہمدردی“ میں کہا تھا کہ....
”ہیں لوگ وہی، جہاں میں اچّھے
آتے ہیں جو کام، دوسروں کے“
”حسّان“ کے لغوی معنے ہیں ”اچھا“۔ خواجہ صاحب نے خادمِ اعلیٰ کو دو سو روپے اُدھار دے کر اور علاّمہ اقبالؒ کی ہدایت عمل کر کے اپنی ”اچھائی“ ثابت کردی۔ یقیناً خادمِ اعلیٰ بھی خواجہ حسّان کو اچھائی کا بدلہ اچھائی میں دیں گے۔ مَیں کشمیری نہ ہونے کے باوجود خواجہ حسّان کےلئے لاہور میونسپل کارپوریشن کا "Lord Mayor" بنائے جانے کےلئے دُعا کروں گا۔ یقین کریں کہ کبھی کبھی میری دُعائیں قبول بھی ہو جاتی ہیں لیکن اب مَیں کیا کروں؟ اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ”اُدھار محبت کی قینچی ہے“ لیکن مَیں موقع پا کر خود خادمِ اعلیٰ سے دو ہزار روپے اُدھار مانگنے والا تھا۔ اب مانگے تو وہ یہی کہیں گے کہ ”پہلے میں خواجہ حسّان کا دو سو روپے کا اُدھار واپس کرنے کی پوزیشن میں ہو جاﺅں پھر آپ کی درخواست پر غور کروں گا“۔ خادمِ اعلیٰ کے والد صاحب میاں محمد شریف اِس دُنیا میں نہیں ہیں۔ وہ اُدھار اُتارنے کےلئے برادرِ بزرگ سے دُعا کرائیں اور اپنی تنخواہ میں گزارہ کرنے کی عادت ڈالیںکیونکہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی تنخواہ بڑھائی گئی تو باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی تنخواہ بھی بڑھانا پڑے گی۔ فلسفہ¿ اُدھار پر کسی شاعر نے کہا تھا کہ....
”خرید لیں کسی یوسف کی جان بیچ کے آج
اِسی پہ حضرتِ دل ہیں، اُدھار کھائے ہُوئے“