ترکی نے سرحدی خلاف ورزی پر روسی طیارہ مار گرایا ہے۔ یہ بڑی بہادری کی بات ہے۔ اس کے باوجود کہ ترکی نیٹو کا ممبر ہے۔ اس کی فوجیں افغانستان میں لڑ رہی ہیں۔ امریکہ نیٹو کے لیے بھی ایک سپر پاور ساتھی ہے۔ سپر پاور زیاد اور ساتھی کم ہے۔ مگر یورپی ممالک کے لیے امریکہ ایک رشتہ داری محسوس کرتا ہے۔ ترکی بھی آدھا یورپی ملک ہے۔ میں نے ترکی کے سفر میں یہ منظر دیکھے ہیں۔ وہاں آج کل مسلمانوں کے اثرات بھی ہیں اور مغربی تہذیب کا ماحول بھی غالب ہے۔ کئی مسلمان ملکوں میں مغربی تہذیب کے اثرات بہت بھرپور ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں خاص طور پر مغربی بلکہ امریکی رہن سہن کے اطوار موجود ہیں۔ لوگوں کا خیال لندن کی طرف رہتا ہے۔ آج کل دبئی بھی بہت پسندیدہ شہر ہے۔ یہاں جلاوطنی اور ہموطنی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنی پارٹی کا صدر دفتر ہی دبئی بنا لیا ہے۔ وہیں اپنی پارٹی کے لوگوں کو بلا لیتے ہیں اور میٹنگ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی جلاوطنی اسی شہر میں گزاری تھی۔ شریف برادران کے لیے جدہ (سعودی عرب) اور بھٹو فیملی کے لیے دبئی پسندیدہ ہے۔ دبئی بھی اب ماحول کے حوالے سے لندن سے کم نہیں ہے۔
ترکی میں اب ایک اسلامی تہذیب کی تحریک زوروں پر ہے۔ فتح اللہ گولن ان کا لیڈر ہے اور وہ امریکہ میں رہائشی پذیر ہیں جسے جلاوطنی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خمینی بھی انقلاب ایران سے پہلے پیرس میں جلاوطنی میں تھے۔ پاکستان میں ان کے نمائندے برادر مسعود بہت اچھے دوست ہیں۔ ان کے ساتھ ترکی میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ میں اس ملک میں حسن و جمال کی فراوانی اور اپنے ملک کے لیے محبت اور قربانی سے بہت متاثر ہوا۔ ترکی میں حکومت بھی ان لوگوں کی ہے جو ترکی کے مسلم اقدار کے بہت قریب ہیں۔
ترکی میں ہی ایسی قومی حمیت ہے کہ وہ روس کا طیارہ مار گرا سکتے ہیں۔ روس اب بھی ایک پاور ہے۔ اس کے پاس نیوکلیئر انرجی کے ڈھیر ہیں۔ ہم نے افغانستان سے روس کو مجاہدین سے مل کر نکالا مگر اس کامیاب جدوجہد سے فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔ سوویت یونین (روس) کے سپرپاور ہوتے ہوئے امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ لیبیا کو زیرو زبر کر دیتا۔ اب شام کو برباد کرنے میں وہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔ کسی خودمختار ملک میں دندناتے ہوئے پھرنا کونسی اخلاقیات بلکہ عسکری اخلاقیات کے مطابق کام ہے۔
روس نے شام کی حکومت کو بچانے کے لیے باغیوں پر بمباری شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ نے واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں عالم اسلام کو اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی ہے۔ شام کی مزاحمت ابھی تک جاری ہے کہ اسے روس کی حمایت حاصل ہے اور امریکہ بھی اب کوئی ظلم ڈھانے کے لیے محتاط ہو گیا ہے۔
ترکی میں روسی طیارہ مار گرانے کی بات کوئی سادہ نہیں ہے۔ یہ کوئی بین الاقوامی چال ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ ترکی کو اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کا پورا حق ہے۔ کچھ لوگ تو اس واقعے کو تیسری جنگ عظیم کا خطرہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ فرانس کے شہر پیرس میں جو کچھ ہوا ہے اس کے لیے یورپ نے بیان جاری کیا ہے کہ یہ غیرمنظم جنگ عظیم کی طرح کی کارروائی ہوئی ہے۔ پیرس اور ترکی کے واقعے کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھیں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور امریکہ کی سوچ اور پلاننگ کا پتہ چل جاتا ہے۔ روس نے امریکہ کے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے جیسا کوئی ردعمل ظاہر کیا تو کچھ نہ کچھ ہو گا۔ امریکہ کی کارروائی سے کچھ نہ ہوا تھا۔ امریکہ اور آج کے روس میں کچھ تو فرق ہے۔ پاکستان جو ہمیشہ امریکہ کے ساتھ رہا ہے اسے دہشت گردی کے بہانے سے غیرمستحکم کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستانی حکومتوں کو محتاج کر کے رکھ دیا ہے۔ سرکاری بزدلی اور بے حمیتی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری فوج نجانے کس طرح امریکہ کے جبر اور زیادتی سے بچ گئی ہے؟ ہماری فوج دنیا کی چند بہترین فوجوں میں سے ایک ہے اور پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ امریکہ اب بھارت کی طرف بہت مائل بہ کرم ہے۔ وہ بھارت کے ذریعے چین کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے مگر بھارت کبھی امریکہ کی توقعات پر پورا نہیں اترے گا۔
پاکستان چین کے لیے اس سے زیادہ اہم ہے۔ جتنا اسرائیل امریکہ کے لیے ہے۔ چین کبھی بھی پاکستان کو برباد نہیں ہونے دے گا۔ اقتصادی راہداری چین کے لیے ایک نعمت ہے۔ پاکستان کے لیے بھی نعمت ہے اسے ساری دنیا کے لیے ایک نعمت بنایا جا سکتا ہے مگر امریکہ اور بھارت اس راہداری کو اپنے لیے بہت بھاری سمجھتے ہیں۔ اس کا حال بھی کالا باغ ڈیم کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے اربوں روپے اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی جھولی میں ڈال دیئے ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی سیاستدان اب اس کے لیے اپنی جھولی پھیلائے بیٹھے ہیں۔
ترکی نے روسی طیارہ مار گرایا ہے۔ اگر یہ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کرتا تو ہماری حکومت اس ’’حملے‘‘ پر بھی صبر سے کام لیتی مگر ایک امید ہے کہ جنرل راحیل شریف کی مستحکم شخصیت کے طفیل نواز شریف نے کشمیر کے لیے امریکہ میں آواز اٹھائی اور بھارت کو بھی للکارا تو امید تھی کہ ہم کچھ نہ کچھ ردعمل ظاہر کرتے۔
ترکی ایٹمی ملک نہیں ہے۔ اور ہم ایٹمی ملک ہیں۔ ایٹم بم اپنے پاس ہے مگر اس کے حوالے سے اپنی طاقت کا ادراک بڑا ضروری ہے۔
روسی صدر پیوٹن نے اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ترکی نے دہشت گردوں کا ساتھ دیا ہے۔ اب دہشت گردی کا بہانہ روس کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اب دہشت گرد داعش میں شامل ہو گئے ہیں اور امریکہ داعش کو ختم کرنے کے اعلان کرتا رہتا ہے۔ اس کا حال بھی وہی ہو گا جو القاعدہ کا ہوا۔ دہشت گردوں کی ممانعت بھی اور ان کی حمایت بھی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ صرف عالم اسلام میں ہو رہا ہے۔ افغانستان نے اپنے تسلط کے دوران یہی کچھ کیا تھا مگر امریکہ بڑا ظالم ہے۔
امریکہ نے ہماری دوستی اور دہشت گردی میں فرنٹ لائن ملک ہوتے ہوئے ہمیشہ ہمیں دبائے رکھا اور رسوا کیا۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے لیے پاکستان میں امریکہ کے تین ہیلی کاپٹر گھس آئے۔ فطرت کو یہ قبول نہ تھا۔ اتفاقاً امریکہ کا ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا۔ ایک تماشا ہوتا رہا۔ وہاں سے وہ اسامہ بن لادن کی لاش ہی اپنے ساتھ لے کے جا سکتے۔ ایبٹ آباد کے پڑوس میں ملٹری کی کاکول اکیڈمی ہے۔ مگر اس ضمن میں جنرل کیانی نے کوئی ردعمل بھی ظاہر نہ کیا۔ ہمارے صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی نے امریکہ کو مبارکباد دی۔ اس سے بڑھ کر ہماری قومی شرمساری نہیں ہو سکتی تھی۔ جبکہ اس بات کا حکم پاکستانی حکومت کو دیا جاتا تو بھی ہم اسامہ کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیتے۔ ہمارے حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کو بھی پکڑ کے امریکہ کے حوالے کر دیا۔ اب روس کو امریکہ کی طرف سے ہمارے لیے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ روس نے پھر بھی کبھی پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ جب افغانستان پر قابض تھا تو بھی یہ حرکت نہ کی۔ شاید تب امریکہ کا ڈر تھا۔ اب تو امریکہ ہمارے لیے یہ بھی نہیں کرے گا جتنا وہ ترکی کے لیے کر رہا ہے۔ کسی ملک کو اور بھارت کو اب یہ خیال ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہے جو سپہ سالار ہونے کے ہمارے افتخار کے قابل ہے کشمیر میں بھارتی فوجیوں کو چڑانے کے لیے کشمیری فریڈم فائٹر جنرل راحیل شریف کی تصویر دکھاتے ہیں اور وہ جل جاتے ہیں۔
اس دوران پہلی شہید خاتون پائلٹ مریم مختیار کی نماز جنازہ اور تدفین کے منظر ٹی وی چینلز پر دکھائے گئے۔ قوم کی بہادر بیٹی کے لئے ہر آنکھ اشکبار تھی اور دل جھوم رہے تھے۔ وہاں ائر چیف مارشل بھی تھے۔ تینوں افواج کے نمائندے بھی تھے۔ جنرل راحیل کا پیغام بھی پہنچ گیا مگر جنازے میں کوئی سویلین ’’لیڈر‘‘ نہ تھا۔ پھر بھی محمود اچکزئی سویلین شریف اور جنرل شریف کا موازنہ کرتا ہے۔ ایک سویلین حکمران قائم علی شاہ اپنے حکمران ’’صدر‘‘ زرداری کے حکم پر دبئی حاضری کے لیے ائر پورٹ پر دیر سے پہنچا تو ایک غیرملکی ائر لائن کی پرواز انہیں ائر پورٹ پر چھوڑ کر اڑ گئی۔ شاہ صاحب نے سمجھا ہو گا کہ پاکستان میں غیرملکی ائر لائن بھی ہماری غلامی کرے گی۔