ماسکو+ انقرہ (نوائے وقت رپورٹ+ اے ایف پی+ رائٹر) روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طیارہ مار گرائے جن پر ترکی سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نے ابھی تک معافی نہیں مانگی، ترک حکومت دوطرفہ تعلقات کو بند گلی میں لے جارہی ہے۔ دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ طیارہ مار گرانے پر روس سے معافی نہیں مانگیں گے۔معافی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مانگنی چاہیے۔ ہمارے پائلٹوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ اردگان نے کہا ہے کہ ترکی روس کا لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے کے بعد کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔ ترکی نے اپنی سلامتی اور شام میں اپنے بھائیوں کے دفاع کے لئے اقدام کیا تھا۔ داعش کے خلاف ترکی کی مہم غیرمتنازعہ ہے انہوں نے داعش سے تیل خریدنے کی تردید کی۔ ترکی میڈیا کے مطابق صدر نے کہا ”روسی جیٹ کو ترکی کی فضائی حدود میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ تباہ ہونے کے بعد شام کی حدود میں گرا تھا البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے کچھ حصے ترکی کی حدود میں گرے جس سے دو شہری زخمی ہوگئے تھے۔ اردگان نے کہا کہ ہم صرف اپنی سکیورٹی اور اپنے بھائیوں کے حقوق کا دفاع کررہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ترکی کی شام کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، ہم شامی سرحد کے دونوں جانب انسانی امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ مہاجرین کی نئی لہر کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ ترک صدر نے پیوٹن کے اس موقف کو مسترد کردیا ہے کہ روسی طیارے شام کی فضائی حدود میں پروازیں کررہے تھے اور صرف داعش کے جنگجووں پر بمباری کررہے تھے۔ اردگان نے کہاکہ یہ کہا جارہا ہے کہ روسی طیارے اس علاقے میں داعش کے خلاف جنگ کے لئے موجود تھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش اللاذقیہ اور ترکمانوں کے علاقے میں موجود ہی نہیں، ہمیں بے وقوف نہ بنایا جائے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ترکی کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں، پابندیوں کا اطلاق ترکی سے غذائی برآمدات پر بھی ہوگا۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کی جانب سے اس کا جنگی طیارہ مار گرانے کے واقعہ کے باوجود ترک سرحد سے متصل شامی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف روس کی فضائی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکووف نے ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کی سرحد سے متصل علاقوں میں شامی باغیوں کے ٹھکانے موجود ہیں جس کے باعث روسی طیارے سرحدی علاقے میں پروازیں کرنے پر مجبور ہیں۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ترکی کی کارروائی روس کو اشتعال دلانے کی سوچی سمجھی کوشش لگتی ہے۔ روس کے مفتی اعظم طلعت تاج الدین نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روسی لڑاکا طیارے ایس یو 24 کو گرانے پر روس سے معافی مانگے۔ مفتی اعظم طلعت تاج الدین کے مطابق ترکی کا یہ غیر دوستانہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیرین دوما کے سپیکر سرگئی ناریشکین نے شام کے نائب وزیر اعظم، وزیر خارجہ ولید معلم سے ملاقات میںکہا کہ روس اس بات کے قطعی خلاف ہے کہ کسی ملک کی حکومت میں غیر ملکی طاقتوں کی خواہش پر تبدیلی آئے۔ ضروری ہے کہ شام کے عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور اپنی حکومت کا انتخاب کریں۔ روس سمجھتا ہے کہ شام میں امن کی بحالی کی خاطر تمام ملکی سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کیلئے زمین ہموار کرنا اہم ہے اور روسی قیادت اس میدان میں سرگرم کوششیں کر رہی ہے۔ روسی طےارے کو امرےکی توپ شکن مےزائل سے ما ر گرانے کا انکشاف ہوا ہے۔ غےر ملکی مےڈےا کے مطابق ترکی اور روس کے درمیان شدےد کشےدگی کا باعث بننے والے روسی طیارے کو گرانے کے واقعہ میں یہ نکشاف ہوا ہے کہ طیارے کو گرانے کے لئے امریکی توپ شکن میزائل کا استعمال کیا گیا تھا۔ شام کے فوجی ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے امریکہ سے اس میزائل کو خریدا تھا اور ترکی کے راستے کچھ ہفتے پہلے ہی اسے شام لایا گیا تھا۔ پیوٹن کا کہنا ہے کہ ترک حکومت جان بوجھ کر تعلقات کو اس جانب لے جارہی ہے۔ روس نے ترکی سے غذائی اشیاءکی درآمدات پر کنٹرول سخت کردیا ہے۔ روسی وزیراعظم سے ترکی کے خلاف اقدامات کا حکم دیا جس کے تحت سرمایہ کاری کے کئی منصوبے متاثر ہوں گے۔روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ترکی سے ہاٹ لائن پر معلومات کے تبادلے سمیت تمام فوجی روابط معطل کردیئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ اگر معلوم ہوتا جنگی طیارہ روس کا ہے تو مختلف ردعمل ظاہر کرتے طیارہ گرانے کے بعد سے روسی صدر فون کا جواب نہیں دے رہے۔ترکی نے مشنز، فرمز پر حملوں پر احتجاج کیلئے روسی سفیر کو طلب کیا ہے ۔پیوٹن نے کہا ہے کہ ترکی کی جانب سے طیارہ گرانا بے وفائی ہے۔سی این این کے مطابق ترکی میں دہشت گردی کے الزام میں معروف صحافی پکڑ لئے گئے۔
ترکی / روس