تنخواہیں بڑھانے میں مریم نواز کی ہم نام مریم اورنگ زیب کا نام کہاں سے آ گیا۔ اس طرح کا کریڈٹ تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار لیا کرتے ہیں۔ وہ معاشی ترقی کی خوشخبری بھی سناتے رہتے ہیں جو اخبارات میں صرف ایک خبر کے طور پر نظر آتی ہے۔ اس ملک میں کئی برسوں سے خیر کی خبر نہیں سنائی دی۔ کئی دوستوں نے اب چینل دیکھنے بند کر دئیے ہیں۔ چینلز پر ہر گھنٹے کے بعد خبریں ہوتی ہیں۔ صبح سے رات تک ایک ہی خبر یا خبریں چلتی رہتی ہیں۔
یہ لوگ کیوں نہیں جانتے کہ کسی بہت بڑی خبر کی اہمیت بھی پہلی بار سننے میں ہوتی ہے۔ بار بار ایک ہی خبر سنتے سنتے لوگ تنگ آ جاتے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد مگر جنگ جتنی بڑی ہو اس کے لیے بھی ایک خبر ہی بنتی ہے۔ خواتین و حضرات کے جاں بحق ہونے کی خبریں اتنی کثرت سے سنوائی جاتی ہیں کہ اب مرنا بھی کوئی خبر نہیں رہی۔ یہاں تو زندہ رہنا بھی کوئی خبر نہیں ہے۔
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
تنخواہیں بڑھانے کی خبر بھی ممبران اسمبلی تک محدود رہ گئی ہے۔ ورنہ عام ملازمین کی تنخواہیں بجٹ کے موقع پر تکلف کے طور پر بڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ملازم کو ملزم سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں زیادہ سے زیادہ 10 فیصد اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جاتی ہے اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کرنے کے بعد بھی کہا گیا ہے کہ ابھی مزید اضافہ کیا جائے گا۔
مریم صاحبہ کو ”مبارکباد“ ہو۔ میں حیران ہوں کہ ممبران اسمبلی امیر کبیر لوگ ہیں۔ کوئی بھی کروڑوں سے کم خرچ کر کے اسمبلی میں نہیں پہنچتا۔ کوئی غریب آدمی انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مریم صاحبہ نے کہا ہے کہ افراط زر ہو گیا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ بے چارے غریب ممبران کیسے گزارا کرتے ہونگے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب اپنے محکموں کے ملازمین کی تخواہوں میں اضافہ کے لیے تو کوئی اعلان کرتیں۔ یہ اضافہ تو بجٹ کے اعلان کے بغیر ہو گیا ہے؟ کیا اس کے لیے کسی ضابطہ کار یا قاعدے قانون کی ضرورت نہ تھی۔
غربت ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسمبلی میں کوئی ممبر بھی غریب نہ ہو جن کے ووٹوں کے طفیل وہ یہاں تک پہنچے ہیں وہ غریب ہیں۔ ارکان اسمبلی تو غریبوں کے نمائندہ ہیں۔ غریب ملک کے امیر سیاستدان اور حکمران غریبوں کے نمائندے نہیں ہو سکتے؟ غریبوں کے نمائندے غریب ہی ہو سکتے ہیں۔
اس کے لیے ہماری کولیگ کالم نگار طیبہ ضیاءنے ایک زبردست کالم لکھا ہے۔ اس کا عنوان ہی ساری کہانی بیان کر رہا ہے۔ ”نوابوں کی تنخواہوں میں اضافہ“۔ یہ لوگ کتنے بے درد کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ممبر اسمبلی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہماری تنخواہ میں اضافہ کم تنخواہ والے ملازمین سے زیادتی ہے۔ پاکستان میں اتنی کم تنخواہ پر لوگ گزر بسر کرتے ہیں کہ ارکان اسمبلی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
مجھے وزیراعظم نواز شریف سے بھی سخت شکایت ہے کہ ان کی صدارت میں کابینہ اجلاس نے اس اضافے کی اجازت دی ہے وہ روایتی معنوں میں سرمایہ دار نہیں ہیں۔ مگر اب سرمایہ دار بن چکے ہیں کہ ان کے ساتھ سب کے سب سرمایہ دار ہیں۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کہاں ہیں؟ عمران خان کیوں احتجاج نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کا نیا نیا ترجمان فواد چودھری ہی کوئی بات کرتا۔ اس نے کئی سیاسی جماعتوں کا نمک کھایا ہے۔ اسے تلخ نوائی میں باتوں کو نمک مرچ لگانا بھی آتا ہے۔ پرویز خٹک پیپلز پارٹی کا وزیر رہا ہے۔ برادرم علیم خان ق لیگ کا وزیر تھا۔ جہانگیر ترین ن لیگ کا وزیر رہا ہے۔ ”غالباً“؟ تو تحریک انصاف اب کس کیخلاف تحریک چلائے گی؟
آج دوپہر سے کچھ پہلے برادرم منور انجم نے فون کیا کہ سینٹر فرحت اللہ بابر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ میرے پاس میرے دس مرلے کے کوارٹر میں آ گئے۔ میرے محبوب ماموں ڈاکٹر اکبر نیازی بھی ان سے ملے۔ بابر صاحب بڑے کمٹڈ آدمی ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا ذکر ہوتا رہا۔ ہم نے مل کر بھٹو صاحب کی باتیں بھی کیں۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ منور انجم لاہور کے باہر سے آنے والے پیپلز پارٹی کے سب دوستوں کا میزبان ہوتا ہے۔ اس نے میرا نام لیا تو سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اجمل نیازی سے ضرور ملنا چاہئیے۔ میں بھی انہیں جانتا ہوں مگر پہلی بار ملاقات آج ہوئی۔ ان کے مزاج کی کشادگی مجھے بہت پسند آئی۔ اس سے پہلے منور انجم شہلا رضا کو بھی میرے گھر میں لے آیا تھا۔ میرے علم کے مطابق بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی قابل ذکر آدمی پارٹی چھوڑ کر گیا ہو۔ یہ لوگ ”لوٹے“ کبھی نہیں بنے۔ منور انجم نے زبردست بات کی کہ پیپلز پارٹی کے اصل لوگ اب تک ثابت قدم ہیں۔ جو لوٹے پیپلز پارٹی میں آئے تھے وہ واپس چلے گئے۔ جنہوں نے سیاست پیپلز پارٹی میں شمولیت سے شروع کی۔ وہ اب بھی پوری طرح پارٹی میں موجود ہیں۔
جہانگیر بدر کے جنازے میں پیپلز پارٹی کے اصل لوگ شریک ہوئے مجھے خوشی ہوئی کہ آصفہ بھٹو زرداری تعزیت کیلئے جہانگیر بدر کے گھر آئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی آئے۔ وہ لوگ بھی بہت تھے جو پیپلز پارٹی میں نہیں ہیں مگر جہانگیر بدر کے دوست ہیں۔