اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے 24 اکتوبر 1980ء کو پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ میں کمشن حاصل کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کینیڈا میں کییڈین فورسز کمانڈ افیئر سٹاف کالج ٹورنٹو سے گریجویشن کی۔ انہوں نے امریکہ کی نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مانٹرے کیلیفورنیا سے تربیت حاصل کی۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے بھی تربیت حاصل کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ کے سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکنیک میں انسٹرکٹر بھی رہے ہیں۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے کمانڈنٹ بھی رہے ہیں، وہ 10 کور کے چیف آف سٹاف کے طورپر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ راولپنڈی کی کور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ 16 بلوچ رحمنٹ کے کمانڈر بھی رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف نے ایک انفنٹری بریگیڈ کی بھی کمان کی ہے۔ وہ شمالی علاقوں کے بعض انٹری ڈویژن کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کانگو میں ایک امن دستہ کی بھی قیادت کی ہے۔ وہ ستارہ امتیاز ملٹری بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سربراہ کے عہدہ پر ترقی نہ پاتے تو اگلے سال 8 اگست کو فوج سے ریٹائر ہو جاتے۔ جو دوسرے سینئر جرنیل اب ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں ان میں لیفٹیننٹ جنرل واجد حسین چیئرمین ہیوی انڈسٹری‘ لیفٹیننٹ جنرل نجیب اﷲ خان ڈائریکٹر جنرل جائنٹ سٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے بھی شامل ہیں۔ ان سے پہلے جنرل یحییٰ خان‘ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ جنرل باجوہ چیف آف سٹاف بھی رہے، اسکے علاوہ شمالی علاقہ جات کی فارمیشن کے کمانڈر رہے۔ 2009ء میں انہیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انکے پیشرو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں میں جنرل راحیل ہی کی طرح ’کھلے ڈُلے‘ افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انہی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہشمند رہتے ہیں۔ جنرل جاوید قمر باجوہ کے بارے میں انکے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے بعض افسروں کا خیال ہے کہ انکے ساتھ کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر بے تکلف گفتگو کی جا سکتی ہے۔ انکی یہ خوبی انہیں اپنے ساتھیوں میں مقبول اور ممتاز بناتی ہے۔ حال ہی میں مکمل ہونے والی فوجی مشقوں کو جنرل باجوہ ہی نے ڈیزائن کیا تھا۔