مولانا ظفر علی خان اسلامیانِ ہند کے بطل جلیل تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے ایک سرکردہ رہنما اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتہائی معتمد ساتھی تھے۔ ان کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف بابائے قوم نے ان الفاظ میں کیا تھا:’’مجھے پنجاب میں ظفر علی خان جیسے ایک دو بہادر آدمی دے دو تومیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ جب 23مارچ1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا اور اس میں قرارد ادِ لاہور منظور ہوئی تو اس موقع پر قائداعظمؒ کی ہدایت پر مولانا ظفر علی خان نے اس قرارداد کا انگریزی سے اُردو میں فی البدیہہ ترجمہ کیا۔ بعدازاں ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ نے بھی اس تاریخی قرارداد کی تشریح و توضیح میں نمایاں حصہ لیا۔ ہندو پریس نے اس قرارداد پر تابڑ توڑ حملے شروع کئے تو ان کا توڑ کرنے کے ضمن میں بھی مولانا ظفر علی خان نے اس اخبار اور اپنے قلم کو شمشیر برہنہ کی مانند استعمال کیا۔ انہوں نے برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن پالیسیوں کا بھی بڑی بیباکی سے محاسبہ کیا۔ انہوں نے ایسے وقت اسے للکارا جب اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ اس جرأت گفتار کی پاداش میں انہیں اپنی زندگی کے بارہ برس جیل اور نظر بندی میں بسر کرنا پڑے لیکن ان کے عزم و استقامت میں ذرہ بھر لغزش پیدا نہ ہوئی جو ان کی جرأت ایمانی کی روشن دلیل ہے۔ 1945-46ء کے انتخابات نے قیام پاکستان پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی مگر اس ضعیف العمری کے باوجود انہوں نے مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ وہ اپنے جذبۂ ایثار کے ہاتھوں مجبور ہو کر دیگر مسلم لیگی امیدواروں کے حلقوں میں ان کی انتخابی مہم آگے بڑھاتے رہے تاہم ان کی عدم موجودگی کے باوجود ان کے اپنے حلقے کے عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرا دیا اور ان کے مد مقابل کانگریس اور مجلس احرار کا مشترکہ امیدوار کے ایل گابا اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھا۔
مولانا ظفر علی خان نے صحافت کو ایک اعلیٰ نصب العین کا درجہ دیااور کبھی اسے کاروبارنہ بنایا۔ ان کا اخبار ’’زمیندار ‘‘مسلمانان ِ ہند کی ملی و قومی اُمنگوں کا ترجمان اخبار تھا۔ اس کی قیمت صرف ایک آنہ تھی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ صبح کے وقت لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر یہ اخبار خریدا کرتے تھے اور سہ پہر کو یہی اخبار آٹھ آنے میں خریدنا پڑتا تھا۔ ان کے تحریر کردہ اداریے برطانوی حکمرانوں کے لئے تازیانے کی حیثیت رکھتے تھے۔ جدوجہد آزادی کے ایام میں پنجاب سول سیکرٹریٹ میں پہلی بار انگریزی سے اُردو زبان میں ترجمہ کرنے کیلئے اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں آئی۔ مقصد یہ تھا کہ انگریز حکومت یہ جان سکے کہ مولانا ظفر علی خان کیا لکھ اور چھاپ رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑادشمن پنجاب کا بدنام زمانہ گورنر مائیکل اڈوائر تھا جس نے ’’زمیندار‘‘ کو بند کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔انہیں کبھی نظر بندی تو کبھی بے بنیاد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا مگر یہ تمام مشکلات و مصائب ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکے۔ ہندوستان سے رخصت ہونے کے بعد مائیکل اڈوائر یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم یہ سارے ہتھکنڈے مولانا ظفر علی خان کی ہمت پست کرنے کے لئے اختیار کرتے تھے تاہم وہ ہر بار ایک نئے جذبے کے ساتھ ابھرتے تھے۔
مولانا ظفر علی خان نے میدان ہائے صحافت و سیاست میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ تحریک پاکستان درحقیقت حق و باطل کا ایک معرکہ تھااور وہ اس معرکے کا ایک لافانی کردار تھے۔ ان کی 60ویں برسی کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ نے کی۔ انہوں نے مولانا ظفر علی خان کی ملی، قومی اور صحافتی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا فکر و عمل دور حاضر کے ارباب سیاست و صحافت کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کا سب سے بڑا وصف عاشق رسول ہونا ہے اور ان کا نعتیہ کلام اس امر پر گواہ ہے ۔ نشست میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی، روزنامہ دنیا کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی، مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محموداور سیکرٹری راجہ اسد علی خان نیز ڈاکٹرپروین خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ظفر علی خان ایک تحریک‘جذبے اور مشن کا نام ہے۔ آج کے دور میں جب صحافت ایک کاروبار کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے‘ مولانا ظفر علی خان اور محترم مجید نظامی جیسے نظریاتی صحافیوں کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل جب ایوان کارکنان تحریک پاکستان پہنچے تو ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ وہ ایک نظریاتی شخصیت ہیںجنہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ سے بہت عقیدت ہے۔2003ء کو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے سال کے طور پر منایا گیا جس کے دوران انہوں نے مادر ملتؒ کی حیات و خدمات پر ایک نہایت وقیع کتاب تحریر کی۔ آپ نظریۂ پاکستان فورم کوئٹہ میں ایک فعال کردارادا کر رہے ہیں اور سید فصیح اقبال مرحوم کے ساتھ مل کر انہوں نے نظریاتی محاذ کر قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں بلوچستان میں ایک انتہائی محب وطن شخصیت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔