10 ہزارمیگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنےکا منصوبہ تاخیر کا شکار

 حکومت کی جانب سے2018میں10000میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل نہ پہنچنے کا امکان بڑھ گیا۔ بجلی کے مختلف میگا منصوبے تاخیر کا شکار ، جس کی وجہ سے منصوبوں کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلی اور فنڈنگ کی عدم دستیابی ہے۔ دستاویزات کے مطابق حکومت کی جانب سے ملک میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے متعدد منصوبوں پر کام جاری مگر ان منصوبوں میں ڈیزائن کی تبدیلی اور فنڈنگ کے مسائل سے منصوبے پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں اور مستقبل میں بھی ان میں مزید تاخیر ہونے کا امکان ہے ۔1969میں شروع ہونے والا 969میگاواٹ کا حامل نیلم جہلم پاور منصوبے کے لئے حکومت نے2018ءکی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے مگر اس پر ابھی کاغذوں میں 84فیصد کام ہوا ہے جبکہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں ۔ اس طرح تربیلا IV 1410میگا واٹ حامل کا منصوبہ پر 68فیصد کام ہوا ہے جبکہ 106میگاواٹ کے گولن گول پر صرف50فیصد ہی کام ہو سکا ہے۔ دستاویزات کے مطابق4500میگاواٹ کے دیامیر بھاشا ڈیم کا پی سی ون2009ءمیں 844ارب روپے میں منظور کیا گیا تھا مگر حکومت کو اس منصوبے میں فنڈنگ کے مسائل کا سامنا ہے اس طرح حکومت نے 2160 میگا واٹ کے داکو (ایچ پی پی) مرحلہ ون کو بھی2018ءمیں شامل کرنے کے دعوے کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر ان منصوبوں پر کام تیز بھی کر دیا جائے تو ان کا بروقت مکمل ہونا ناممکن ہے جبکہ کول اور ایل این جی پاور منصوبے2017ءکے آخر تک کام شروع کریں گے جن سے چند ہزار میگاواٹ بجلی ہی سسٹم میں شامل ہو سکے گی۔ جس سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا خواب پورا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ملک کو 2018میں 25000میگا واٹ سے زائد بجلی کی ضرورت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن