اس میں شک نہیں کہ قادیانیت واقعی ایک لعنت ہے جو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں پر نہ صرف سوار رہی بلکہ شرمناک مظالم کا ارتکاب بھی کرتی رہی ۔درحقیقت یہ سامراجی طاقتوں کے عزائم کی تکمیل تھی جو کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرکے ان کا ایمان ختم نبوت پر کمزور کرنا چاہتے تھے ۔قادیانی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر قسم کی ترغیبات فراہم کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوںمیں قادیانی پاکستان کے ہر سرکاری ادارے میں چھائے ہوئے تھے ۔یہ علمائے کرام کی عظیم جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم کارنامہ تصور کیاجاتاہے جن کے دور میں قادیانیت کو غیر مسلم قرار دے کر ان کی عبادت گاہوں کا نام بھی تبدیل کردیا گیا ۔اس کے باوجود کہ قادیانیت کو اسلام سے خارج قرار دیاجاچکاہے لیکن پس پردہ سازشوں کا سلسلہ ختم نہیںہوا۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں جو پاس ہونے والے انتخابی بل میں شامل ختم نبوت کے حلف نامے میں جس قسم کی تبدیلی کی گئی ۔ اسے عوام کے شدید احتجاج کے بعد حلف نامے کو پرانی شکل میں بحال توکردیا گیا لیکن ان عناصر تک پہنچنااور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا از بس ضروری ہے کیونکہ اگر اس وقت تحمل مزاجی سے کام لے لیا گیا تو آئندہ بھی کسی وقت اس غلطی کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ عدالتی اور حکومتی کارروائی اور واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے وعدے کے تناظر میں احتجاجی دھرنے کو غیر ضروری طول دینا اور ملک میںدنگا فساد پھیلانا کسی بھی طرح صائب فیصلہ نہیں ۔ یہ بات سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث رہی کہ فیض آباد کے اس دھرنے سے دونوں شہروں کے درمیان رابطہ ختم ہوکر رہ گیااور روزانہ لاکھوں افراد کو اس دھرنے کی وجہ سے سخت تکلیف اور اذیت کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ نبی کریم ﷺ کافرمان عالی شان ہے کہ جو شخص راستے میں گرا ہوا ایک پتھر اس نیت سے اٹھا دیتاہے کہ گزرنے والے کے پاﺅں اس سے زخمی ہوسکتے ہیں اس کا اللہ تعالی کے ہاں اجر عظیم ہے ۔لیکن اس کے برعکس احتجاج کی آڑ میں راستے بلاک کرنا اور خلق خدا کو دانستہ اذیتیں دینا میری نظر میں خلاف اسلام ہے ۔ الحمد اللہ ہم سب ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی یا آپ ﷺ کے مرتبے میں کمی کو کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس وقت جبکہ ملک میں دہشت گردی کی جنگ عروج پر ہے اور ملک دشمن عناصر روپ بدل بدل کر قومی وحدت پر حملہ آورہورہے ہیںاور فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ منافرت پیدا کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اس لمحے ہمیں باغیانہ روش کو ختم کرتے ہوئے تحمل مزاجی کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا ۔ انتہاءپسند ی کا یہ جن اگر بوتل سے باہر آگیا تو پھر پاکستانی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرکے رہے گا ۔ جہاں تک احتجاجی دھرنے والوں کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ وزیر قانون کو فوری طور پر برطرف کیا جائے اگر حکومت ایسا کر بھی دیتی تو کیا ضمانت تھی کہ کل کوئی اور دھرنے والے حکومت کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ نہ کرتے ۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک میں بدترین روایت اور احتجاج کا ایسا بیہودہ طریقہ رائج کیا گیاہے جس کو ہر کوئی اپنانے کی جستجو میں مصروف ہے ۔ان کے دیکھا دیکھی ینگ ڈاکٹر ¾ نرسیں ¾ اساتذہ ¾ سرکاری ملازمین احتجاجی دھرنے ہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں اب تو بچے بھی والدین سے اپنی ضد پوری کروانے کے لیے زمین پر ٹکریں مارنا شروع کردیتے ہیں اگر نواز شریف ¾ عمرانی دھرنوں کو ابتداءہی میں مصلحت کاشکار ہونے کی بجائے اکھاڑ پھینکتے تو آج حکومت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر کامیاب آپریشن پچھلی رات کو کیاجاتاہے صبح ہونے سے ہر چیزکلیئر ہوجاتی ہے لیکن موجودہ حکومت نے دن کے اُجالے میں آپریشن کرکے احمقانہ اقدام کیاہے ۔ ٹی وی چینلز بند کرنے کی بجائے انہیں براہ راست کوریج سے روک دیاجاتاتو بہتر ہوتا۔اب شنید یہ ہے کہ حکومت نے فوج کو طلب کرلیا ہے پاکستان میں فوج طلب کرنے کا مقصد آمریت کی راہ ہموارکرنا ہے۔ یہ بات بریلوی مسلک کے تمام علمائے کرام کو بھی پیش نظر رکھنی چاہیئے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی آڑ میں کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے جگ ہنسائی ہواور عالمی سطح پر پاکستان کے ماتھے پر بدنامی کا داغ لگے ۔ دشمن تو پہلے ہی ہمارے تعاقب میںہے اور بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتا۔جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کا فیصلہ حکومت کو ہر حال میں ماننا پڑے گا ۔
انتہاءپسندی کا جن بوتل سے باہر نہیں آنا چاہیئے
Nov 27, 2017