اتوار 19 نومبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایبٹ آباد میں عوام کے بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ اقتدار جیسی بیوفا چیز دنیا میں کوئی نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے بار بار اس حقیقت کا تجربہ کیا ہے۔ یہ سیاسی صورتحال کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ نواز شریف آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ایک لیڈر عدالتی فیصلے میں نا اہلی کے باوجود عوام میں اس قدر مقبول ہے۔ جی ٹی روڈ پر ہم پہلے ہی یہ مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔
کیا اس کا یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ عوام پر فیصلے کا اثر نہیں ہوا۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اٹل ہے۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے ایک اور مقبول وزیراعظم بھٹو صاحب فرماتے تھے کہ سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت ہے۔
عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے ہم مداخلت بے جا کے مجاز نہیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ عوام میں ایک طوفان جائز یا ناجائز، ہم فتویٰ نہیں دیتے اس وقت بھی اٹھے گا جب سپریم کورٹ سے عمران خان اور ترین کا فیصلہ آئے گا۔ عدالتی فیصلوں کے بعد مناسب الفاظ میں اور قانون کے دائرے میں تنقید جائز ہے۔ مگر فیصلہ جو بھی آگے آئے اس کی اپیل بھی نہیں ہے۔ ”انصاف“ کے حوالے سے یہ بھی ایک سوال ہے۔
نواز شریف کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں بعض جماعتوں کا تعاون حاصل نہیں۔ ورنہ قانون سازی کے ذریعے وہ راہ نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ایسی کسی قانون سازی کو منسوخ کر دے۔
نواز شریف پر اور مقدمات قائم ہو جائیں یا انہیں سزا ہو جائے بظاہر لگتا ہے کہ عوام میں ان کی مقبولیت باقی رہے گی۔الیکشن کے التوا کی باتیں ہو رہی ہیں مگر مسلم ملکوں کی صورتحال میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ الیکشن میں اصل مقابلہ نواز لیگ اور PTI کا ہو گا۔ زرداری صاحب کی حکمت عملی ناکامی کی جانب رخ اختیار کر چکی ہے۔ اندرون سندھ کے علاوہ کہیں اور پر جادو جگانا ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔
انہوں نے اپنے رویہ سے نواز شریف کا بڑا نقصان کیا ہے مگر خود انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ اور تو اور جناب سعد رفیق پی پی پر کھل کر تنقید کرنے لگے ہیں۔ خورشید شاہ کی رائے مختلف ہو سکتی ہے مگر وہ کریں تو کیا کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ جس عاصم حسین نے پی پی کی خاطر دکھ جھیلے، اسے بھی پی پی سے بیدخل کر دیا گیا۔ پی پی میں ایک عنصر ایسا ہے جو مہاجر دشمنی پر مائل ہے۔ ایک خاتون ایم این اے دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔ مگر زرداری صاحب کی محترم بہن نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سندھی ووٹ کے حصول کے لئے سندھی عوام کو مہاجر دشمنی پر آمادہ کرنا پی پی کی بظاہر مجبوری ہے۔ عاصم حسین نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ انہیں نکالا گیا ہے۔
ایبٹ آباد کے جلسے اور پھر بعد ازاں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی حالیہ شکست نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔مسلم لیگ (ن) میں دراڑ پڑنے اور فارورڈ بلاک بننے کی امید فضول ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کی پنجاب میں بڑی اہمیت ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما جناب سعد رفیق نے بیان دیا ہے کہ جو MNA یا MPA پارٹی چھوڑے گا ”رُل“ جائے گا۔ پھر ٹکٹ کہاں سے لے گا۔ ایبٹ آباد کے جلسے میں جناب نواز شریف خوب گرجے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جیل اور موت سے نہیں ڈرتے۔ عوام کا جمِ غفیر میاں نواز شریف کے حق میں فلک شگاف نعرے لگاتا رہا۔ نواز شریف اب ایک شخصیت کا نہیں ایک نظریئے کا نام ہے۔ مائنس نواز شریف محض ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ جلسے میں مسلم لیگ ن کا معروف نعرہ گونجتا رہا۔ دیکھو دیکھو کون آیا۔ شیر آیا۔ شیر آیا۔ جناب نواز شریف نے کہا کہ خلق خدا اندھی اور گونگی نہیں ہے۔
آواز خلق کو نقارئہ خدا سمجھو
٭....٭....٭....٭....٭....٭