اقتصادی ترقی کے دعوﺅں کا بھرم رکھنا دشوار ہو گیا

Nov 27, 2017

احمد جمال نظامی
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بالاخر تین ماہ کی رخصت حاصل کر لی ہے۔ اسحاق ڈار کے حوالے سے ان کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ شدید علالت کے باعث علاج معالجے کے لئے بیرون ملک برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اسحاق ڈار کو موجودہ حکومت نے 2013ءکے عام انتخابات کے فوری بعد وفاقی کابینہ کی تشکیل کے موقع پر وزیرخزانہ نامزد کیا تھا، اس سے قبل 2008ءکے عام انتخابات کے بعد جب آصف علی زرداری نے مخلوط حکومت کے تحت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مشترکہ صوبائی اور وفاقی کابینہ تشکیل دی تھی اس وقت بھی شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت وہ مسلم لیگ کی جانب سے وفاقی کابینہ میں وزیرخزانہ مقرر ہوئے تھے ۔ اور چند ماہ بعد اپنے ساتھیوں سمیت وفاقی کابینہ سے الگ ہو گئے تھے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے موجودہ حکومت کے چار سالہ دوراقتدار کے دوران بار بار معیشت کی مضبوطی اور ملکی تاریخ میں ریکارڈ ترقی کے دعوے کئے۔ اس ضمن میں کئی بین الاقوامی جرائد کی رپورٹس اور سروے بھی سامنے آتے رہے جس کا اسحاق ڈار بار بار تذکرہ کرتے رہے ہیں لیکن پانامہ لیکس سکینڈل آنے کے بعد جب عدالت عظمیٰ نے میاں محمد نوازشریف کو نااہل کیا تو اسحاق ڈار نے پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹس پر اپنے حوالے سے مختلف اعتراضات پر ایک پریس کانفرنس کی اور عدالت جا پہنچے جہاں عدالت نے ان کے پیش کردہ دستاویزات میں آمدن اور اثاثہ جات میں عدم توازن کی بناءپر ایک نیا پٹارہ کھول دیا جس کے بعد اسحاق ڈار کا ریفرنس بھی نیب میں چلا گیا اور نیب میں چند پیشیوں کے بعد اسحاق ڈار ملک سے باہر چلے گئے۔ اس بارے میں مختلف آراءپائی جاتی ہیں کہ وہ نیب کے پریشر میں شدید تنا¶ کا شکار ہو کر بیمار ہوئے ہیں یا پھر جس طرح ہمارے سیاستدان بیمار ہوا کرتے ہیں اسحاق ڈار بھی اسی طرح بیمار ہو کر دیارغیر جا بیٹھے ہیں۔ تاہم اسحاق ڈار کے بیرون ملک جانے کے بعد معیشت کے حوالے سے شدید قسم کے تحفظات، تشویش اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صنعتی، تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے بلاتفریق حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملکی معیشت کی جو تصویر پیش کی جاتی رہی ہے وہ اتنی بھی قابل رشک نہیں۔حکومتی پالیسیز کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں کاروبار زندگی بری طرح مفلوج ہے۔ حکومت کے پیش کردہ ریکارڈ ترقی کے تمام اعدادوشمار محض فرضی اور جعلی ہیں جن کا حقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ضمن میں تاجر برادری کی طرف سے بالخصوص صوبہ پنجاب میں احتجاج سامنے آیا۔ انہوں نے وزیرخزانہ کو اپنے احتجاج کے دوران براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور ان کے پتلے نذرآتش کئے گئے۔ تاجروں کا احتجاج معنی خیز تھا کہ وہ اپنے احتجاج کے دوران ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ، توانائی ذرائع کی قیمتوں میں اضافے وغیرہ کے خلاف نعرے لگاتے رہے جو کسی حد تک جائز بھی تھے۔ لیکن ان کے نعروں میں ایک نعرہ ایف بی آر کے خلاف بھی تھا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ حکومت اپنا ٹیکس ریونیو کولیکشن ٹارگٹ پورا کرنے کی غرض سے ایف بی آر کو وسیع اختیارات دے کر تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے اور تاجر برادری کی اکثریت جو ٹیکس نہیں دیتی وہ اس پر اپنی ایسوسی ایشنز کے ذریعے سراپا احتجاج ہیں۔
وطن عزیز میں وفاقی اور صوبائی بجٹ میں ہر سال مختلف محکموں کے لئے ٹیکس کولیکشن کے ہدف مقرر کئے جاتے ہیں بالخصوص وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے دونوں محکموں سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس کے لئے جو ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ طے پاتا ہے اس پر کبھی بھی عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ جس کی ایک بڑی وجہ ٹیکس نہ دینے والے تاجر حضرات، بڑے زمیندار بھی ہیں۔ لیکن اس رکاوٹ کی سب سے بنیادی وجہ ہمارے دونوں بڑے قانون ساز اداروںمیں بیٹھے مفاد یافتہ مقتدر حضرات ہیں۔جو جنوبی پنجاب، بلوچستان، صوبہ خیبر پی کے اور سندھ سے بڑے زمینداروں کی شکل میں منتکب ہو کر آتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے ٹیکس کے معاملات کبھی بھی حقیقی معنوں میں ایسے تشکیل نہیں پا سکے جس کے تحت بڑے مگرمچھوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے۔ اس کی واضح مثال شوگر ملوں سے لی جا سکتی ہے کہ شوگر ملوں پر قرضہ لینے اور ان کے ٹیکس کے حوالے سے ان کے مالکان کو کس قدر چھوٹ، مراعات اور ریلیف فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹیکس ریفارمز کا موجودہ ڈھانچہ دیکھ کر بلاخوف و خطر ایف بی آر کے دونوں اداروں میں کرپشن کی وجہ تلاش کرنا ہر گز مشکل نہیں۔ درحقیقت ٹیکس کا شکنجہ کسنے والے خود ریلیف کے دریچے تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی رخصتی کے بعد تاجروں اور مختلف حلقوں کی طرف سے احتجاج تو سامنے آیا ہی تھا لیکن کپڑے کی صنعت اور برآمدکنندگان کی طرف سے احتجاج سے براہ راست برآمدات کا نوحہ سنائی دے رہا ہے۔ ملک کی برآمدات کس حد تک متاثر ہو رہی ہیں اور اس وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں، افراط زر اور جی ڈی پی کی حقیقی شرح کیا ہے اس بارے میں ان سب اعدادو شمارنے پردہ چاک کردیا ہے ۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہوئی کہ معیشت کسی طور پر بہتری کی طرف گامزن نہیں اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے دونوں شعبہ جات زراعت اور ٹیکسٹائل سمیت تمام شعبے بری طرح مشکلات کی زد میں ہیں ۔جن کے لئے اپنے کاروبار چلانے مشکل تر ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن دوسری طرف ملک میں نہ کوئی وزیرخزانہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ریگولیٹری ادارہ موجود ہے جو توانائی ذرائع یعنی بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور اسی طرح مختلف صنعتوں کے لئے استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں استحکام کی غرض سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو نیب نے بیمار کر دیا ہے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے معاشی و اقتصادی معاملات کو مزید خراب ہونے سے بچایا جائے ۔ حکومت اس ضمن میں کسی قسم کی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کر رہی، ماسوائے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم کو اقامہ پر نااہل نہ کیا جاتا تو وہ نوجوانوں کو روزگار دیتے، غریبوں کو مکان دیتے اور ملک میں معاشی و اقتصادی ترقی کی کئی نئی راہیں کھولتے۔ بہرحال معاشی و اقتصادی معاملات اتار چڑھا¶ کے ساتھ مشکل صورت حال میں ہیں اس ضمن میں ضروری ہو گا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فوری طور پر اسحاق ڈار سے رابطہ کریں اور ان کی جگہ کم از کم عارضی بنیادوں پر جب تک وہ علیل ہیں ایک مستقل اور فل ٹائم وزیرخزانہ نامزد کیا جائے جو ملک کے معاشی و اقتصادی معاملات و معاشی و اقتصادی حلقوں کے مسائل حل کر سکے۔

مزیدخبریں