وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف نے اقتدار کے پہلے سو دنوں میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے یا نہیں اس پر تو گذشتہ سو دنوں سے مسلسل ایک نہ ختم ہونیوالی بحث جاری ہے مگر جس دن سرکاری طور پر عمران خان صاحب نے حلف اٹھایا اور اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی، اسی تقریب میں ماضی کے مشہورِ زمانہ بھارتی جاٹ کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے جو جپھی ڈالی اسکے گہرے اثرات کسی نیوکلیئر بم کی طرح خطے کی سیاست پر ثبت ہوئے۔قارئین! اس لیے گزشتہ روز ایک بھارتی چینل پر براڈکاسٹ ہونیوالے ایک شو میں میں نے بھارتی اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قمر باجوہ نے تو سدھو کو صرف جپھی ڈالی ہے اگر میں اس تقریب میں موجود ہوتا تو میں اسکی بھارتی حکومت سے ٹکرانے والی جرأت پر اسکو جپھی ڈالتا اور پپی بھی لیتا۔ بے شمار پاکستانیوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ جو کام ہم بھارت سے پانچ جنگیں لڑ کر اربوں روپے کے وسائل ،اسلحہ اور ہزاروں جوانوں کی قربانی دے کر حاصل نہ کر سکے وہ جنرل باوجودہ نے ایک جپھی ڈال کے کر دکھایا۔ قیامِ پاکستان کے وقت تاریخی محتاط اندازے کے مطابق پچیس لاکھ پنجابیوں کا قتلِ عام ہوا یہ تعداد پہلی جنگِ عظیم میں پوری دنیا میں ہونے والی ہلاکتوں کے برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور قائدؒاور ان کے رفقاء کا ہمارے لیے ایک تحفہ ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اس سے ایک نئی شناخت ملی۔ جہاں ہم آج آزادی کی سانس لے رہے ہیں مگر اسکا سب سے زیادہ نقصان صرف اور صرف پنجاب کوہوا۔ قارئین! دوسری جنگ عظیم کے صرف پچاس سال بعد مشرقی برلن اور مغربی برلن کے درمیان سے دیوار تو گِر گئی مگر قیامِ پاکستان کے دوران اس قتل و غارت گری سے بچھڑنے والوں کا آج تک ملاپ نہ ہو سکا۔ اب تھوڑے سے روابط بحال ہوئے ہیں تو میں نے کچھ روزقبل میڈیا پر یہ دیکھا کہ اکہتر سال پہلے بچھڑنے والا سکھ بھائی اپنی مسلمان بہنوں کو گلے لگا رہا ہے۔ میری دنیا بھر میں سکھوں کے مختلف دھڑوں اور انکی قیادت سے میل ملاقات ہوتی ہے،تقریباً یہ سبھی لوگ 1947ء میں ماسٹر تارا سنگھ کی غلطی پر نادم ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آنجہانی تارا سنگھ سکھوں کا بھارت کے ساتھ الحاق نہ کرتے تو آج بھارت میں بسنے والے سکھ دوسرے تیسرے درجے کے شہری بن کر نہ جی رہے ہوتے۔ سکھوں کیلئے اس سے بڑی اذیت ناک سزا کیا ہو گی کہ وہ اپنے مذہب کے بانی بابا گرونانک کے گردوارے اور جنم بھومی ننکانہ صاحب اور گردوارہ کرتار پور کی زیارت کو ستر سال سے نہیں آ سکے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے خدانخواستہ سعودی عرب پاکستان کے حاجیوں پر پابندی لگا دے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ گیارہ سال پہلے جب نوائے وقت کے صفحات میں پنجاب کی تقسیم کے موضوع پر ایک کالم لکھا تو میرِ صحافت جناب مجید نظامی(مرحوم) نے پاس بلا کر شاباش دی اور بتایا کہ ان کا تعلق بھی چونکہ ننکانہ صاحب سے ہے، انہوں نے بے شمار سکھ زائرین کو بچھڑنے کے غم میں زاروقطار روتے ہوئے دیکھا ہے۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ ہم پنجابی اور پاکستانی بھی ہیں۔ دونوں اطراف کے پنجایبوں کے رسم و رواج، غم و خوشی، روایات اور ثقافت، زبان اور تمدن ایک ہی ہے، حتیٰ کہ ہماری ذات برادریاں بھی سکھوں سے ملتی جلتی ہیں مگر 1947ء میں جب پنجاب کا بٹوارا ہوا تو چالاک بھارتی حکومت نے مشرقی پنجاب کے تین ٹکڑے کرکے پنجاب کو اپاہج بنا دیا۔ چندی گڑھ اور ہریانہ کو علیحدہ صوبہ بنا دیا گیا جبکہ باقی بچ جانیوالے پنجاب کو طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی۔اسی طرح 1947ء کی آزادی کے بعد ایک خاص طبقہ چیلوں کی طرح پنجاب پر منڈلا رہا ہے،وہ سینٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار پنجاب کو تقسیم کرناچاہتا ہے، حالانکہ جنوبی پنجاب کا سرائیکی بولنے والا طبقہ لسانی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم چاہتا ہے اور تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں سرائیکی بیلٹ کے ووٹ کیلئے پنجاب کو چیر پھاڑ دینا چاہتی ہیں حتی ٰ کہ محققین اور تاریخ کا علم رکھنے والے لوگ سرائیکی کو ایک زبان کے طور پر ماننے سے انکاری ہیں یقینا سرائیکی ایک پنجابی مقامی لہجہ ہے۔ اسی طرح جھنگ ،سرگودھا، چنیوٹ، میانوالی اور ملتان بہاولپور کے لوگ اور سینٹرل پنجاب میں فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرات اور گوجرانوالہ کے لوگ اپنے اپنے مقامی لہجے میں پنجابی بولتے ہیں۔
ایک طرف فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کیا جا رہا ہے جبکہ گوادر کو بلوچستان میں شامل کیا جا چکا ہے تو ان حالات میں صرف پنجاب کو تقسیم کرنیوالے ہوش اور عقل کے ناخن لیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان 28نومبر کو کرتار پور بارڈر کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں، یہ لمحات سکھوں کیلئے ہی نہیں پنجابیوں کیلئے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے جبکہ پورے پاکستان اور خطے کیلئے معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ شاید بھارتی سرکار کیلئے اب یہ ممکن نہ رہے کہ وہ پنجابی بٹوارے سے مزید فوائد حاصل کر سکے۔ بحیثیت تجزیہ نگار کرتارپور کی سرحد کا افتتاح دراصل مشرقی پنجاب کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اور باقی کی آزادی اگر سکھوں میں دم ہوا تو وہ خود حاصل کر لیں گے۔ بہرحال اس منظر نامے میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا لیا ہے۔
کرتارپور سرحد کا کھلنا ایک مثبت قدم
Nov 27, 2018