بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مزید آٹھ کشمیریوں کی شہادت اور وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب کی بھی پاکستان پر ہرزہ سرائی
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کے دوران جنوبی کشمیر میں آٹھ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا جس کے بعد گزشتہ تین روز کے دوران شہید ہونیوالے کشمیری نوجوانوں کی تعداد 18 تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ روز کے اندوہناک واقعہ کے بعد پوری مقبوضہ وادی میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کیخلاف زبردست مظاہرے کئے اور وادی آزادی کے حق اور بھارت کیخلاف لگنے والے نعروں سے گونج اٹھی۔ بھارتی فورسز کی فائرنگ‘ آنسو گیس کی شیلنگ اور تشدد سے دو درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے تین کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ احتجاج میں شدت پیدا ہونے کے خوف سے قابض انتظامیہ نے جنوبی کشمیر میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی جبکہ بھارتی جارحیت کیخلاف حریت قیادت نے پیر کے روز پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کی کال دی چنانچہ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کرکے کشمیری عوام نے جہاں اقوام عالم کے سامنے بھارتی مکروہ چہرہ بے نقاب کیا وہیں بھارتی تسلط قبول نہ کرنے کا بھی عالمی برادری کو ٹھوس پیغام پہنچایا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوجوں نے سات نوجوانوں کو ضلع شوپیاں کے علاقے بٹہ گنڈ کاپرت میں تلاشی اور محاصرے کی کارروائی کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کرکے شہید کیا۔ ان میں سے چھ نوجوانوں کی نعشیں فوجی کارروائی کے دوران تباہ ہونیوالے ایک مکان کے ملبے سے ملیں جبکہ دسویں جماعت کے طالب علم محمد اشرف بٹ کو فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کرکے شہید کیا۔ بھارتی فوجیوں نے ضلع پلوامہ کے علاقہ گھریو میں ایک اور نوجوان کو شہید کیا۔
گزشتہ روز شہید نوجوانوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اس موقع پر بھارت کیخلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اسی طرح سری نگر میں کشمیری یونیورٹی کے طلبہ نے یونیورٹی کے کیمپس میں شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور بھارت کیخلاف زبردست نعرے لگائے۔ حریت قائدین سید علی گیلانی‘ میرواعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے گزشتہ تین روز میں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں ہونیوالی 18 شہادتوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وادی میں ہڑتال کی اپیل کی اور باور کرایا کہ بھارت نے اپنی فورسز کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے چنانچہ ایک سال کے دوران اب تک چار سو سے زائد کشمیری شہید کئے جاچکے ہیں جو اس امر کی واضح نشاندہی ہے کہ بھارت کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو فوجی طاقت کے ذریعہ دبانے کی پالیسی پر بدستور عمل پیرا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ خاموشی توڑ کر بھارت پر دبائو ڈالے اور اسکے ہاتھوں کشمیریوں کا قتل عام رکوائے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار نے صرف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کا عرصۂ حیات ہی تنگ نہیں کیا ہوا بلکہ گزشتہ چار سال سے اس نے پاکستان کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی انتہاء کو پہنچا رکھی ہے جس پر سرجیکل سٹرائیکس اور کھلی جنگ کی بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے علاوہ خود بھارتی وزیراعظم بھی متعدد بار مواقع پر دھمکیاں دے چکے ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جنونی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جہاں آئے روز بھارتی فوجیں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی چوکیوں اور ان سے ملحقہ سول آبادیوں کو بھی فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بناتی ہیں چنانچہ اس چار سال کے عرصہ میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درجن بھر اہلکاروں کے علاوہ بیسیوں سول باشندے بھی شہید ہوچکے ہیں جبکہ ان بھارتی کارروائیوں سے کنٹرول لائن کی نواحی آبادیوں میں مسلسل خوف و ہراس کی فضا قائم ہے جس کے باعث وہاں کے باشندے اپنا گھر بار‘ کاروبار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہیں اور اب تک وہاں سے ہزاروں باشندے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ اسی طرح مودی سرکار پاکستان کیخلاف اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کرتے ہوئے اسکے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات سے مسلسل گریز کررہی ہیں۔ اس نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بارے میں بھی یہ مکروہ پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ یہ اسکے مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہیں جنہیں اس نے پاکستان سے واگزار کرانا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت نے امریکہ کو بھی سی پیک کی مخالفت پر قائل کیا ہے کہ اس منصوبہ کی سڑکیں شمالی علاقہ جات سے گزر کر جائیں گی اس لئے مسئلہ کشمیر کے فیصلہ تک ان علاقوں کو پاکستان کے زیراستعمال آنے سے روک دیا جائے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت ایک جانب تو مقبوضہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک کرنے کو تیار نہیں اور وہ کشمیر کا ذکر آتے ہی پاکستان بھارت مذاکرات کی میز بھی الٹا دیتا ہے جبکہ اس نے گزشتہ دو سال سے اسی تناظر میں سارک سربراہ کانفرنس کے انعقاد کی نوبت بھی نہیں آنے دی جس کا شیڈول کے مطابق اسلام آباد میں انعقاد ہونا تھا مگر دوسری جانب وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو متنازعہ قرار دیکر انہیں کشمیر کے ساتھ منسلک کرلیتا ہے جو بھارتی منافقت اور ریاکاری کا بین ثبوت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان کے ساتھ اچھے مراسم کا تاثر دیتا ہے اور پھر یکایک اپنے خیرسگالی کے جذبات سے رجوع بھی کرلیتا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی نیویارک میں وزراء خارجہ کی باضابطہ ملاقات کی تجویز قبول کرکے اس ملاقات کے شیڈول کا بھی اعلان کردیا گیا مگر پھر یکایک بھارت پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے اپنے اس اعلان بھی منحرف ہوگیا اور پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کے ساتھ سردمہری والا رویہ اپنائے رکھا۔
اب ایسا ہی معاملہ بھارت کی جانب سے کرتاپور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت کے حوالے سے سامنے آرہا ہے۔ کرتاپور سرحد کھولنے کی تجویز پاکستان کی جانب سے بھارتی پنجاب کے سینئر وزیر اور سینئر آرٹسٹ نوجوت سنگھ سدھو کی خواہش پر مودی سرکار کے سامنے رکھی گئی جسے مودی سرکار نے قبول کرنے کا اعلان کیا تاہم جب کرتاپور سرحد کھولنے کی تقریب کی تاریخ متعین ہوئی تو مودی سرکار نے حسب عادت اس تقریب میں شمولیت کے معاملہ میں بھی پیج و تاب کھانے شروع کردیئے۔ پاکستان کی جانب سے راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے خود وزیراعظم عمران خان کے کرتارپور جانے کا اعلان ہوا تو پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس تقریب میں شمولیت سے معذرت سامنے آئی‘ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی تقریب میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور پھر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا بھی اس تقریب میں شمولیت سے انکار اور پاکستان پر بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ سامنے آگئی حالانکہ اس سے دو روز قبل وہ خود سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو اس تقریب میں شمولیت اور بھارت آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ اب صرف نوجوت سنگھ سدھو ہی اس تقریب میں شمولیت کیلئے پاکستان آنے پر ڈٹا ہوا ہے مگر بھارت سرکار اسے اسکی اجازت اور ویزہ دیگی تو اس کا دوبارہ پاکستان آنا ممکن ہوگا۔ جو اب مودی سرکار کی پاکستان کے ساتھ کینہ پروری اور ننگی دشمنی کے باعث ناممکنات میں شامل ہو چکا ہے۔
یہ حقیقت اب اقوام عالم پر بھی واضح ہوجانی چاہیے کہ بھارت آج سیکولر ریاست کے بجائے مکمل طور پر انتہاء پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں مسلمانوں اور سکھوں سمیت کسی بھی اقلیت کو چین اور سکون سے نہیں رہنے دیا جارہا جس کیخلاف اب بھارت کے اندر سے بھی اور بھارتی راجیہ اور لوک سبھا میں بھی سکھ اور مسلمان اقلیتوں کے نمائندوں کی جانب سے صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر آتی ہے مگر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی چنانچہ وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے اور انکے ناطے پاکستان کے ساتھ بھی کشیدگی انتہاء تک پہنچانے کی پالیسی پر ہی کاربند ہے چنانچہ اسے پاکستانی کھلاڑیوں‘ دانشوروں اور فنکاروں کے خیرسگالی کے دورے بھی اپنے ملک میں گوارا نہیں جنہیں بھارت کے ویزے دینے سے بھی انکار کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز بھارتی ہائی کمیشن نے اسی تناظر میں ورلڈ ہاکی کپ میں شمولیت کیلئے بھارت جانیوالے پاکستانی صحافیوں کو بھی ویزے دینے سے انکار کردیا ہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں جس طرح ہندو انتہاء پسندوں نے ایودھیا میں اودھم مچایا ہوا ہے اور وہاں وہ رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو انتہاء پسندی کو اجاگر کرتے ہوئے وہاں مندر کے ساتھ کسی صورت مسجد تعمیر نہ ہونے دینے کے اعلانات کررہے ہیں وہ اقوام عالم کے مشاہدے کیلئے کافی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری تاراج کرنے کے کھلم کھلا درپے ہے اور وہ ہمارے ساتھ کشیدگی بڑھائے رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں کسی بھی معاملہ میں اس کیلئے ریشہ خطمی ہونے کی کیاضرورت ہے۔ بیشک ہماری جانب سے کرتارپور سرحد کھولنے کیلئے پیش رفت کرکے اقوام عالم کو بھارت کے ساتھ امن و سکون سے رہنے اور اسکے ساتھ تمام دیرینہ مسائل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا پیغام دے دیا گیا ہے جو بھارتی ریاکاری کے باوصف خلوص پر مبنی ہے مگر ہم اپنی سلامتی کیخلاف بھارتی جارحانہ عزائم کو بھانپ کر بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کے اقدامات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ ہمیں آج جہاں اقوام عالم اور عالمی قیادتوں کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانا ہے وہیں اپنے دفاع کے تمام ممکنہ اقدامات بھی اٹھانے ہیں اور اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی ہرگز غافل نہیں ہونا۔ ایک شاطر‘ مکار اور کینہ پرور دشمن کے مقابل ہم اپنے دفاع کی تیاریوں سے کسی قسم کی غفلت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں آج بھارت کیلئے ریشہ خطمی والی نہیں‘ عملیت پسندی پر مبنی پالیسیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جس کیلئے آج ہماری سول اور عسکری قیادتیں یکجہت و یکسو بھی ہیں۔ ہم نے اپنے کشمیری بھائیوں کو بھی اپنے کسی پالیسی معاملہ پر مایوس نہیں ہونے دینا کیونکہ انکی آزادی کی جدوجہد درحقیقت استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے۔