کئی دفعہ بڑے بڑے سوالوں کا جواب نہ کسی علم میں نہ کسی دانش میں نہ دانشوروں کے ہاں اور نہ کتابوں میںملتا ہے، وہ غیرمتوقع طور پر کسی چھوٹی سی جگہ سے مل جاتا ہے۔ میرے ساتھ یہی ہوا‘ کرتارپور راہداری کے کھلنے کے معاملے کو لیکر میں بھی اوروں کی طرح کبھی بدگمانی کبھی خوش گمانی کا شکار ہو رہی تھی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک طرف کشمیر کا معاملہ، جہاں انڈیا کی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی ہضم نہیں ہو رہی اور دوسری طرف ہم کرتارپور کا راستہ بھی کھول دیں۔ وہ تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ہماری کشادہ دلی کیا معجزہ دکھا دیگی؟ اور پھر کبھی یہ شک کہ سکھ کہیں ہمارا پنجاب بھی نہ مانگ لیں۔ بڑی سکیمیں‘ جاسوسیاں‘ سازشیں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایسی کنفیوژن میں مجھے اپنے ہیئر ڈریسر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں سے میں سالوں سے بچوں کی اور اپنی بھی ہیئر کٹنگ کر واتی ہوں۔ اس سیلون کا مالک کلین شیو سکھ لڑکا بنٹی ہے، ایمپلائیز میں ہر طرح کی نیشنیلٹی کی جن میں پاکستانی، انڈین، سپینش اور رشین لڑکیاں ہیں۔ مالک کا ایک کزن بھی ہے، ظاہر ہے وہ بھی سکھ ہی ہے اور وہ بھی کلین شیوڈ ہی ہے۔ میں جب بھی وہاں جاتی ہوں، ایک فیملی کا احساس ہو تا ہے۔ مگر میرا مرتبہ باقی گاہکوں سے ایک درجہ یوں بلند ہو جاتا ہے کہ مجھے کبھی کبھار وہاں کوفی شوفی کی آفر بھی ہو جاتی ہے۔ "باجی ٹم ہارٹن جا رہے کوفی پینی جے"۔ خیر محلے کے نائی والی دکان جیسے ماحول میں بیٹھ کر کئی مرتبہ وہاں دیوار پر لگے ایل سی ڈی پر کرکٹ میچ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ سیلون میں سب پاکستانی انڈین بال کٹوانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور ساتھ ساتھ میچ دیکھ رہے ہیں اور خوب نعرے لگ رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی دن میرے وہاں بیٹھے بیٹھے پاکستان میچ جیت گیا تو میں نے خوشی میں ساتھ والی دکان سے بھاگ کر مٹھائی پکڑی اور کاونٹر پر رکھ دی تاکہ ہماری خوشی میں سب خوش ہوں۔ سکھ بردارن کے چہروں پر وہ خوشی نہ تھی جو میں دیکھنے کی متمنی تھی۔ سوچا وہی اینٹی پاکستان جذبات۔ ایک بات جو مجھے تکلیف دیتی تھی۔ وہ تھی انڈیا کے اندر اقلیتیوں کیساتھ سلوک اس بات پر وکی‘ یا بنٹی انتہائی نیوٹرل ہو نے کے باوجود ایک متعصابانہ رویہ رکھتے تھے اور مکمل انکاری ہو جاتے تھے کہ انڈیا کے اندر کوئی ایسا غیر مساوی سلوک بھی موجود ہے ، دوسری بات انکا الگ وطن" پاکستان "کے بننے پر اختلاف۔ پھر ایک دن وکی نے کہا: "باجی آپ اپنے ٹاک شو میں خالصتانیوں کو کیوں بلاتی ہیں؟ یہ کوئی تحریک ہے ہی نہیں۔ ہے بھی تھی تو ختم ہو چکی ہے۔ ہمیں انڈیا میں کو ئی تنگی نہیں ہے۔ انڈیا بڑا وڈیا ملک اے۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ جہاں اقلیتوں پر ظلم ہو تا ہے اور انہیں دبایا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ وکی انڈیا میں پھیلی غربت اور تھڑوں پر سوئے لوگ جو میں اپنی آنکھوں سے دلی میں دیکھ کر آئی تھی، ان حقیقتوں کو بھی میرے یا کسی بھی پاکستانی کے سامنے ماننے سے انکاری رہتا تھا اور یہ بات انڈینز میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے کہ وہ پاکستانیوں کے سامنے کبھی اپنی کمزوری کو نہیں اچھالتے۔ ہمارے دانشوروں کی طرح پیٹ سے کپڑا اٹھا اٹھا کر ڈھنڈورا پیٹنا ان کے کسی بھی لیول کے بندے کو نہیں آتا تھا۔ مگر کرتارپور راہداری کے کھلنے کے اگلے ہی دن اس سیلون میں ایک عجیب صورتحال تھی۔ میں جیسے ہی داخل ہو ئی، وکی کسی اور کے بال کاٹنے میں مشغول تھا۔ مجھے دیکھتے ہی دور سے سیلوٹ کیا، عزت تو پہلے بھی بہت کیا کرتے تھے، مگر آج اتنا ٹکا کے سیلوٹ؟ میں نے مسکرا کر دور سے ہاتھ ہلا دیا۔ اتوار کے دن کچھا کھچ بھرا ہوا ہال، اتنی مصروفیت کے باوجود، بنٹی نے کہا:" باجی تسی جانا نہیں ۔" تسی ایتھے بیٹھو میں ہنے کڑی نوں کہنا واں ۔۔۔" پھر چمکتی آنکھوں، دہکتے گالوں سے اس نے مجھے شکریہ کہا۔ میںکاونٹر پر پڑے مٹھائی کے دو ڈبوں کو دیکھ کر سمجھ گئی کہ شکریہ کیوں کہہ رہا ہے، کیوں نہ سمجھتی ایک کے اوپر کرتارپور کی راہداری کھلنے پر مبارکباد لکھ کر ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ "باجی مٹھائی کھادے بغیر نہیں جانا۔ یہ ہمارے پاکستانی کلائنٹ رکھ کر گئے ہیں اور کل ہم نے سارا دن ڈسکاونٹٹد پرائس یا فری کام کیا سب پاکستانیوں کا۔۔مجھے حیرت سے زیادہ پریشانی ہو نے لگی، میں جو سالوں سے ان لوگوں کیساتھ سر کھپا رہے تھی۔ یکایک ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں انکے نظریات بدل چکے تھے۔ اور آج تو بنٹی نے (جو وکی سے زیادہ محتاط ہوا کرتا تھا) "میں نے کہا اتنا سخت ماحول ہے تو پہلے کیوں بولتے تھے۔ میں یہی تو کہا کرتی تھی تو مجھے جھٹلا دیا کرتے تھے۔ کہنے لگا باجی تب لگتا تھا کیا فائدہ، جہاں رہنا وہاں اپنے لئے کیوں مسئلہ پیدا کرنا لیکن اب پاکستان نے یہ کر دیا، ہم پر اتنا بڑا احسان ہے کہ میں آپ کو لفظوں میں نہیں بتا سکتا۔ اب کس منہ سے انڈیا کیلئے جھوٹ بولیں اور پاکستان کو برا کہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ جو مٹھائی کا ڈبہ پڑا ہے، اور یہ جو تین ہندو ابھی ابھی آپکے آگے گئے ہیں اور کل سے جو بھی ہندو آرہا ہے، کسی نے ڈبہ کھول کے دیکھا تک نہیں، یہ ہے انکی ہم سے محبت۔" ۔تو سکھ کی آنکھ سے ہندو کی محبت کا جھوٹا پردہ ہٹ گیا۔ ایک راستہ کھلنے سے۔ دماغ کے کئی در بھی کھل سکتے ہیں۔ اس دن اس بنٹی کے سیلون میں بیٹھ کر احساس ہوا کہ مذہب کا "پتا" ٹھیک طرح چل لو تو دلوں کو جوڑنے والی اس سے بڑی وجہ دنیا میں کو ئی اور نہیں ہو سکتی۔ ایک فیصلے کی پھونک سے سے ہندوستان کی سیکولرازم کا راز فاش ہوا ۔پاکستان کی مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی بدنامی غائب ہو تی نظر آئی۔ اسی کو معجزہ کہتے ہیں۔
کینڈا میں کرتار پو ر کا معجزہ
Nov 27, 2019