نئے انتخابات پر مفاہمت نہیں ہو گی، اپوزیشن کی اے پی سی کا متفقہ فیصلہ

Nov 27, 2019

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن کی 9جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات کو آئینی قرار دیتے ہوئے متفقہ مطالبہ کیا ہے کہ فوری نئے شفاف اورغیر جانبدار انتخابات ناگزیر ہیں جن میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، سلیکٹڈ کو رخصت کرکے منتخب حکومت لائی جائے گی۔ اپوزیشن جماعتیں نئے انتخابات کیلئے تیار ہیں اور متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ملک کی سب سے حساس تقرری کا تماشا بنانے پر حکومت پر تنقید کی۔ موجودہ سلیکٹڈ قابل قبول ہے اور نہ ہی آئندہ قبول کر یں گے۔ الیکشن کمشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے 3رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی۔ کمیٹی الیکشن کمشن کی خالی اسامیوں کیلئے ناموں پر غور کریگی۔ اور ناموں کو حتمی شکل دے کر حکومت کے ساتھ شیئر کرے گی۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو فی الفور بحال کیا جائے اور سی پیک اتھارٹی ازسرنو بنائی جائے۔ یہ بات جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیزکانفرنس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، امیرمقام، نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی، میاں افتخارحسین، شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، نیر بخاری، مصطفی کھوکھر، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسرساجدمیر، جمعیت علماء پاکستان کے علامہ شاہ اویس نورانی، علامہ شفیق پسروری، کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، مریم اورنگزیب، مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم درانی، سینیٹر طلحہ محمود اور دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ مولانافضل الرحمن نے کہاکہ تمام جماعتوں نے قرار دیا کہ سیاسی اور آئینی بحران اور عام لوگوں کے مسائل کا حل موجودہ حکومت کا خاتمہ اور فی الفور انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ممکن ہے۔ کسی ریاستی ادارے کو اپنے دائرے سے تجاوز کی اجازت نہیں، ہر صورت میں آئیں کی بالادستی کو قائم رکھا جائے گا، اے پی سی نے اپوزیشن کے چار نکاتی ایجنڈا کی دوبارہ توثیق اور جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے حساس تقرریوں کو بھی متنازعہ بنادیا گیا ہے۔ اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کی بیماری پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومتی رویے کی مذمت کی گئی ہے ہمارامطالبہ ہے کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے فیصلہ کرے،اجلاس میں پنجاب حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی غیر جمہوری برطرفی کی مذمت اور انہیں بحالی کا مطالبہ کیا ، سی پیک اتھارٹی ازسرنو بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی وزرا نے اپنے بیانات سے سی پیک کو متنازعہ بنادیا ہے۔ ناروے مسئلہ پر مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اورحکومت ناروے حکومت سے مئوثررابطہ کرکے احتجاج کرے ۔بلاول بھٹو زرداری نے بھی نئے انتخابات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'پیپلز پارٹی الیکشن کے لیے تیار ہے اور اس بار ہم سلیکٹڈ نہیں بلکہ عوامی وزیر اعظم لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ہم سب متفق ہیں نہ اب سلیکٹڈ کو مانتے ہیں نہ آئندہ مانیں گے اور چاہتے ہیں کہ ملک میں نئے شفاف الیکشن ہوں۔'آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حامی یا مخالف ہونے کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کہ 'معاملہ عدالت میں ہے اور سرکاری ملازم کی توسیع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔'اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ 'مہنگائی اور بیروزگاری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور پارلیمنٹ کو تالے لگا کر آرڈیننس سے کار سرکار چل رہی ہے جس کے باعث حکومت کو گھر بھیجنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سلیکٹڈ حکومت کو رخصت کرکے الیکٹڈ حکومت لائیں گے اور تمام جماعتیں عوام کے مستقبل کی خاطر نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے سے متعلق احسن اقبال نے کہا کہ 'ملک کی سب سے حساس تقرری کا تماشا بنادیا گیا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آرمی چیف توسیع کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، سرکاری ملازم کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے ،مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پس پردہ رابطے ہوتے رہتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیںبلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ سابق صدر زرداری کی صحت کافی عرصے سے ناساز ہے،حکومت بالکل ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہی ہے، ہم ذاتی معالج کی سابق صدر تک رسائی چاہتے ہیں ،ہم کیسز کا مطالبہ کررہے ہیں، سابق صدر ضمانت کے لئے رجوع نہیں کررہے ہیں ،امید ہے جلد ہمارا کیس سپریم کورٹ کے سامنے لگے اور ہمیں انصاف ملے گا ہمارا کیس سندھ بھجوایا جائے گااحسن اقبال نے کہاکہ ہماری پارٹی اور اپوزیشن کے ساتھ متفقہ موقف ہے کہ موجودہ حکومت نے سلامتی کے خطرات پیدا کردیئے ہیں ،پاکستان کے مستقبل کی خاطر نیا، آزاد اور منصفانہ الیکشن ضروری ہے ۔فضل الرحمن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا انتشار والا رویہ مسائل کو تقویت دے رہا ہے۔ تمام صوبوں اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں مظاہرے کیے جائیں گے۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے آل پارٹیز کانفرنس میں ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے آپشن کو مسترد کر دیا گیا اور کہا کہ عام انتخابات سے کم کوئی آپشن قبول نہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ انہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے آئندہ بجٹ تک نئے انتخابات کرانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر کہا گیا کہ اپریل2020ء تک انتظار کر لیں لیکن میرے مسلسل انکار پر اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ دسمبر 2019 ء یا آ ئندہ سال کے اوائل میں تبدیلی آجائے گی۔ مجھے قومی حکومت یا ان ہائوس تبدیلی کا بھی آپشن دیا گیا۔ جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سوال اٹھایا کہ ان ہائوس تبدیلی میں پھر حکومتی اتحاد کا وزیر اعظم آگیا تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ بعد ازاں باہمی مشاورت کے بعد ان ہائوس تبدیلی کی پیشکش کو مسترد کر دیا گیا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے بتا یا کہ ان کو دھرنا ختم کرنے کے لئے چیئرمین سینٹ، گورنری اور بلوچستان کی حکومت کی بھی پیشکش ہوئی لیکن انہوں یہ پیش کش بھی مسترد کر دی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری اور قمر زمان کائرہ نے رہبر کمیٹی میں کئے جانے فیصلوں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مشترکہ جلسوں کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔

مزیدخبریں