اسلام آباد ( چوہدری اعظم گِل )سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست کو از خود نوٹس میں بدلتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کر دیا ہے اور آرمی چیف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر کے آج تک جواب طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار ریاض حنیف راہی کی مقدمہ واپس لینے کے لیے استدعا بھی مستردکردی۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا، کابینہ کے 25ممبران میں سے گیارہ ممبران نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کی۔ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ 25 کابینہ ممبران میں سے گیارہ ممبران کی حمایت کیا اکثریت کا فیصلہ ہے؟۔ منگل کی صبح نوبج کر 47 منٹ پرچیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیخلاف درخوست پر سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ درخواست گزار کا بیان حلفی درخواست میں نہیں لگایا گیا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اور درخواست گزار خود بھی پیش نہیں ہوا اس لئے ہم واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر اعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں، صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کہاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی، کابینہ سے سمری کی منظوری بھی لی گئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایاکہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ آرمی چیف کی اسوقت عمر کیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کردیا، پھر وزیراعظم کو بتایا گیا آپ نہیں کر سکتے، آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کا ہے، 19 اگست کو نوٹیفکیشن ہوا تو وزیر اعظم نے 21 اگست کو کیا منظوری دی؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی،چیف جسٹس نے کہاکہ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے توسیع کی منظوری دی کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی، صدر کی منظوری پہلے ہوئی کابینہ سے منظوری بعد میں لی گئی، آرمی چیف کی توسیع کی سمری کابینہ کے صرف 11 ارکان نے منظوری دی، کابینہ میں 25 وزرا تھے، کیا کہا جا سکتا ہے کابینہ نے اکثریت سے منظوری دی،کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کو سزا دی، افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے انکا ٹرائل کیا گیا اور سزا دی گئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوے اپنا ذہن اپلائی کیاچیف جسٹس نے کہاکہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، 3 سال کی ابتدائی آرمی چیف کی توسیع کسی رول کے تحت ہوتی، آرمی چیف کی توسیع کا رول آپ نہیں دکھا رہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ایسا لگتا ہے نئی تقرری ہے توسیع نہیں ہے، چیف جسٹس نے کاکہاکہ کیا نئی تقرری کو قانون سے تحفظ حاصل نہیں ہے، قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا، قانون میں نہ توسیع ہے نہ دوبارہ تقرری کا ذکر ہے، جسٹس منصورنے کہاکہ ایسے کیا ہنگامی حالت ہے کہ توسیع دی جا رہی ہے، ایسی کوئی وجہ توسیع دیتے ہوے نہیں بتائی گئی،چیف جسٹس نے کہاکہ کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی،مقدمہ واپس لینے کے حوالے سے درخواست کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم نہیں یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی یا بغیر دباو کے دی گئی عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا اور حکم میں قرار دیا گیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو باضابطہ فریق بنا لیا گیا عدالت نے جنرل قمر جاوید باجوہ ،وزارت دفاع اوروفاقی حکومت سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے عدالت نے حکم میں لکھا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری پیش کی گئی وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا اور وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی، صدر نے 19 اگست کو ہی سمری کی منظوری دیدی،حکم نامہ کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کوجو توسیع دی جا رہی ہے، علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، علاقائی سکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا، عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کر سکے، آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے، کیس میں اٹھنے والی تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی، صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، کابینہ کے بعد سمری وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی،عدالت نے درخواست گزار کی عدم پیروی کے باوجود آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3)کے تحت معاملے کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے قراردیا کہ اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں توسیع دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہووزیر اعظم نے خود آڈر پاس کر کے موجودہ آرمی چیف کو تین سال کی توسیع دی ،حالانکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجاز اتھارٹی ہوتا ہے اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ سروسز چیف کومدت ملازمت میں توسیع دے،اٹارنی جنرل کی جانب سے خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے ،خطے کی صورتحال والی بات اگر درست تصور کر لی جائے تو مسلح افواج کا کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ میری مدت ملازمت میں توسیع کی جائے،عدالت نے کیس کو مفاد عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے سماعت کیلئے منظور کر لیا۔ عدالت نے آرمی چیف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک کے لیے ملتوی کردی ۔دوسری طرف قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آئین و قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔ اس فیصلے پر عدالت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اور فیصلہ سے عدالتی نظام پر ملک کی عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر قانون دان اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکومت کے غیر قانونی اقدام کو از خود نوٹس لے کر معطل کیا ہے۔ شخصیات کی بجائے ادارے مضبوط ہونے چاہئیں۔ پوری بار عدالت کے اس فیصلے کے پیچھے ہے۔ وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل نے عدالت کے اس فیصلہ کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ آئوٹ آف ٹرم پروموشن کو غیرآئینی قرار دے چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج ایک ادارہ ہے اس کا ہر فرد اتنا ہی محترم ہے جتنا آرمی چیف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آدمی اپنی مدت پوری کرچکا ہے اس کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں کا حق مارے، ہمارے ہاں اسلامی روایات بھی ہیں ۔ اکرام چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ قانون کی حکمرانی کی طرف ایک سفر ہے اسے جاری رہنا چاہئے، میرا یہ موقف ہے کہ آئین کی شق 184(3)قانون سازوں نے شامل کی تھی اس کا مقصد تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس حوالے سے ایک ادارہ ایسا ہونا چاہئے جو اس کو چیک کرے، جو عوامی مفاد کے معاملات دیکھے، اس میں لوگوں کے حقوق کا معاملہ بھی تھا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے، ترمیم کے ذریعے آرٹیکل میں لفظ ایکسٹینشن (توسیع) کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جب کہ وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی نئی سمری متفقہ طور پر منظور کر کے صدر مملکت کو بھجوا دی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243کے تحت وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ صدر کو تجویز دیں، صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملکی سالمیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس کیلئے وزیراعظم نے بہت ہی غیر معمولی حالات میں ان کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ وزیراعظم کا صوابدید ہے۔ وفاقی کابینہ نے عدالت کی مدد کرنے اور معاملات کلیئر کرنے کیلئے آرمی ریگولیشن 255میں ترمیم کی ہے۔ اس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اضافہ کیا گیا ہے۔ منگل کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ زیر غور آیا۔ یہ بات وفاقی وزیر تعلیم و تربیت شفقت محمود ، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے میڈیا سنٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ ایل او سی پر کشیدگی، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھی غیرمعمولی نوعیت کی ہے، خدشہ ہے کہ بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن ہو، بھارت کی جانب سے پاکستان کو بار بار دھمکیاں دی جا رہی ہیں، غیر معمولی حالات کے مدنظر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ آرمی کی کمانڈ میں ایک تسلسل ہونا چاہیے۔ وفاقی کابینہ اور اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلہ کو سپورٹ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 11وزراء نے دستخط کئے۔ اس بارے میں رولز واضح ہیں جو انکار نہیں کرتے اسے اقرار سمجھا جاتا ہے، آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے طریقہ کار میں کوئی غلطی نہیں کی گئی، وفاقی کابینہ کے آج کے فیصلوں سے عدالت کو معاونت فراہم کی گئی ہے، آرمی چیف کی توسیع نئی بات نہیں ، یہ جنرل ایوب خان کے دور سے ہے آج تک ہورہی ہے، حالات کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے، آج کے فیصلوں سے عدالت کو معاونت فراہم کی گئی ہے کابینہ نے جائزہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں جو پٹیشن تھی جو بعد میں سوموٹو ہوگئی اور سپریم کورٹ کا نوٹس آیا، آرٹیکل 243کے تحت وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ صدر کو مشورہ دے اور صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر سروسز چیف بشمول آرمی چیف تقرری ہو، صدر مملکت نے آرٹیکل 243کے تحت آرمی چیف کی تقرری کی اور توسیع کی منظوری دی۔ وزیراعظم کو یہ بھی صوابدید ہے کہ وہ اس چیز کا فیصلہ کریں کہ کیا یہ حالات ایسے ہیں کہ جس کے تحت توسیع دینے کی ضرورت ہے کہ نہیں، یہ وزیراعظم کا اختیار ہے، اس وقت ہمارے خطے میں غیر معمولی حالات ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ سات سال بعد ہندوستان نے پاکستان کی سرزمین بالاکوٹ پر حملہ کرنے کی جرات کی۔ کارگل کے بعد پہلی دفعہ ایل او سی کو عبور کیا، یہ غیر معمولی واقعہ تھا، بھارتی طیارہ گر ایا گیا، ایل او سی پر شدید ٹینشن ہے ، گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے، ہندوستان نے کشمیر میں 100دنوں سے زائد عرصہ ہوگیا ہے کرفیو نافذ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزراء بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی۔ ان غیر معمولی حالات کے مدنظر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ آرمی کی کمانڈ میں ایک تسلسل ہونا چاہیے۔ آرمی کی ریگولیشن 255 ہے جس کے تحت پہلے آرمی چیف جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تھی، اس ریگولیشن کے تحت ابھی سمری جاری کی گئی۔ عدالت کی معاونت کے لئے مدت میں توسیع کا یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اور اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے فیصلہ کو سپورٹ کیا اور جوش اور ولولہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمانڈ کی اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیا، وہ جمہوری حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے ، قمر جاوید باجوہ کی تین سال کی توسیع کی حمایت کی اور وقت کا تقاضا قراردیا ، یہ جو کہا جا رہا ہے کہ 11وزراء نے دستخط کیا،رولز واضح ہے ، جو انکار نہیں کرتے اس کو اقرار سمجھا جاتا ہے ، وزیراعظم عمران خان نے دوراندیشی سے آرمی چیف کی مدت کی توسیع کی ، عدالت کے تقاضے پورے کرنے کیلئے فیصلے کئے گئے۔شیخ رشید نے کہا کہ آپریشن ردالفساد سے لیکر آج تک جو آپریشن ہوئے ہیں وہ آرمی چیف کی توسیع کی وجہ ہے ۔ فروغ نسیم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف غلط خبریں چل رہی ہیںآرمی چیف کی توسیع نئی بات نہیں ہے یہ جنرل ایوب خان کے دور سے ہے آج تک ہورہی ہے ، حالت کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے پروسیجر میں کوئی غلطی نہیں تھی ، آئین کی شق 255کے تحت وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کی تقرری کرے ، اس کو مزید واضح کیا گیا ہے ۔کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر شفقت محمود نے شیخ رشید اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 'اجلاس میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا، آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کو ایڈوائس کریں، اس طریقے پر عمل کیا گیا اور صدر نے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔'واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ اجلاس میں 16 نکاتی ایجنڈا زیر غور آنا تھا۔تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے بعد اجلاس میں طے شدہ ایجنڈے کو ملتوی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر تفصیلی غور کیا گیا۔وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کی ہے ، ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 255 میں لفظ ایکسٹینشن کا اضافہ کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، نوٹیفکیشن 19 اگست کو وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔