قیوم نظامی کی کتاب، چند گوشے

نوائے وقت کے کالم نگار قیوم نظامی کی بڑی دلچسپ اور معلومات کتاب ’’جنرل اور سیاستدان تاریخ کی عدالت میں‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب میں درج چند دلچسپ واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں۔ قیوم نظامی لکھتے ہیں ’’قیام پاکستاان سے صرف ایک ہفتہ قبل قائداعظم کی مسلمان فوجی آفیسروں سے دہلی میں جو غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی اس میں ایک مسلمان فوجی آفیسر نے قائد اعظم سے پاکستان میں اپنی ترقی کے امکانات کے بارے میں سوال کیا تو قائد اعظم نے اس فوجی آفیسر کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر تاریخی جملے ادا کئے‘‘ آپ مسلمان یا تو آسمان سے باتیں کرتے ہیں یا دھڑام سے نیچے گر پڑتے ہیں۔ آپ متوازن راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔ ترقیاں اپنے وقت پر ہوں گی پاگل پن اور جلد بازی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سب کو ایک قوم کی تعمیر اور اسلامی ریاست کی شناخت کے بچاؤ اور تحفظ کے لئے محنت کرنا ہوگی۔ پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پر مشتمل ہوگی اور جو شخص بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتا ہے اسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہیئے۔ نظامی صاحب نے معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کی ایک تحقیقی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ میجر یحییٰ خان (بعدازاں جنرل) اور لیفٹیننٹ کرنل اعظم خان (بعد میں جنرل) 1947ء میں محاذ جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے ۔ یہ وہی آفیسر تھے جن کے دور میں پاکستان دو لخت ہوگیا جب کہ دوسرے نے 1953ء میں لاہور میں مارشل لاء لگانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کتاب میں تیسرا واقعہ یہ لکھا ہے کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان بنا۔ قائد اعظم محمد علی جناح پہلے گورنر جنرل بنے۔ گورنر جنرل بننے کے بعد قائداعظم نے ایک دن ایک فوجی آفیسر کو سخت ڈانٹا۔ اس فوجی آفیسر نے یہ شکایت کی تھی کہ ہمیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کے بجائے غیر ملکی فوجی آفیسر لگائے گئے ہیں۔ ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب ’’ہم نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا‘‘ میں اس فوجی آفیسر کی نشاندہی کی ہے کہ وہ اس وقت لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان تے جو بعد میں میجر جنرل بنے اور راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے تھے۔ قائد اعظم نے سختی سے جواب دیا تھا کہ تم لوگ سمجھ لو کہ فوج عوام کی خادم اور ملکی سرحدوں کی محافظ ہے۔ تمہارا کام قومی پالیسیاں بنانا نہیں۔ یہ سویلین حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نظامی صاحب نے جو چوتھا اہم واقعہ لکھا ہے کہ فوج کے پہلے کمانڈر انچیف ایوب خان 1951ء میں مقرر ہوئے۔ اس سے قبل ایوب خان کو مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی تھی کہ ایوب خان نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے اور اس کا طرز عمل غیر پیشہ ورانہ ہے۔ فوجی آفیسر ایوب خان کی ذاتی فائل پر قائداعظم نے لکھا ’’میں اس فوجی آفیسر کو جانتا ہوں یہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے۔ اسے مشرقی پاکستان تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوسٹ پر کام نہیں کرے گا۔ اس دوران بیج بھی نہیں لگائے گا۔ انگریز جنرل گریسی سربراہ پاک فوج نے اپنی مدت پوری ہونے پر ایوب خان کو نیا کمانڈر انچیف بنانے کی سفارش کی ساتھ ہی وزیر اعظم کو متنبہ بھی کیا کہ ایوب خان کی سیاسی خواہشات پر نظر رکھی جائے مگر کسی نے توجہ نہ دی اور سیاستدانوں کی نا اہلی سے جنرل ایوب نے سول حکومت اور آئین ختم کرکے27اکتوبر 1958ء کو حکومت پر قبضہ کرلیا۔ نظامی نے اپنی اس دلچسپ کتاب میںپانچواں اہم واقعہ یہ لکھا کہ پاکستان میں ملک غلام محمد ایک سخت گیربیوروکریٹ گورنر جنرل بنا۔ یہ شخص جمہوری روایات سے نا بلد تھا۔ اس نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کی اور 1954ء میں جنرل ایوب کی ملازمت میں 4سال کی توسیع کر دی۔ حالانکہ ایوب خان 1955ء میں ریٹائر ہو رہے تھے۔ یوں سکندر مرزا، ملک غلام محمد اور ایوب خان کی ایسی مثلث بن گئی جس نے آگے چل کر پاکستان میں سیاسی اقتدار کی کشمکش میں بھیانک کھیل کھیلا۔ قیوم نظامی مزید لکھتے ہیں کہ 12ستمبر 1948ء بھارتی فوج نے جونا گڑھ مناورد، حیدرآباد اور دکن ریاستوں پر جابرانہ قبضہ کیا حالانکہ ان ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان ایک سال قبل کر لیا تھا مگر پاکستان سے کسی نے بروقت حمایت یا مدد نہیں کی۔ حیدرآباد دکن میں سلطنت آصفیہ کی حکمرانی تھی۔ دکن کے نظام نے قیام پاکستان کے وقت سب سے زیادہ پاکستان کی مالی مدد کی ۔ حیدر آباد دکن میں 7مسلمان آصفیہ خاندان کے حکمران گزرے ہیں۔ آخری حکمران عثمان علی خان کی حکومت جب ختم ہونے والی تھی تو آخری نظام دکن اپنے آخری ایام میں روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے بار بار گن رہا تھا۔ مبادا وہ سات کے بجائے 8یا زائد نہ ہوں لیکن بار بار گنتی کے بعد یہ ٹکڑے سات ہی نکلتے تھے۔ یہ ٹکڑے خاندان آصفیہ کے سابق حکمران کو کسی فقیر نے بطور تحفہ دئیے تھے اور وہ پشت در پشت سے بطور اثاثہ محفوظ چلے آرہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان ٹکڑوں سے مراد یہ تھی کہ ساتویں حکمران کے بعد آصفیہ خاندان کی حکومت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔
قارئین محترم! پاکستان آرمی کی اعلیٰ صلاحیتوں پر ہمیں فخر ہے۔ کسی بھی مشکل وقت میں مسلح افواج ہی ہمارا واحد اور آخری سہارا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور فضل و کرم کے بعد ہمیں اپنی فوج پر بھروسہ اور اعتماد ہے۔ مسلح افواج کی قربانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ جنرل افتخار جنجوعہ 1971ء کی جنگ میں دریائے توی کے قریب زخمی ہوئے اور پھر شہید ہو گئے۔ زخمی حالت میں کھاریاں لایا گیا آخری وقت بھی پوچھ رہے تھے کہ دشمن کے حملے کا کیا بنا۔ یہ ہمارے پہلے اور آخری شہید جنرل ہیں۔ اس جنرل نے آخری وقت وصیت کی کہ میری ساری منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد فروخت کرکے میری یونٹ کے شہیدوں اور زخمیوں کو یہ رقم دی جائے۔ پسماندگان میں والدہ نے سو فیصد وصیت پر عمل کیا۔ یہ پاکستان آرمی کا ایک خوبصورت جنرل تھا۔ جنرل انصاری کو بہادری سے لڑنے پر ایوب خان نے ستارہ جرأت ، ہلال  جرأت اور دو جگہوں پر کئی مربع زمین دی مگر جنرل انصاری نے کہا میں نے اپنے وطن کے لئے جنگ لڑی ہے۔ اپنا فرض ادا کیا ہے۔ شکریہ کے ساتھ زمین واپس کردی۔ ایل ڈی اے نے لاہور میں پلاٹ دیا شکریے کے ساتھ وہ بھی واپس کر دیا۔ 1971ء کی جنگ میں جنرل حمزہ خود ہیڈ سلیمانکی سیکٹر میں لڑے۔ مغربی پاکستان کے پورے محاذ جنگ سے 637انڈین فوجی قیدی بنے۔ ان میں 550صرف جنرل حمزہ کی کمان میں پکڑے گئے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اس بہادر سپوت کو ملنے خود ہیڈ سلیمانکی پہنچے تھے۔ بہادر فوج کے آفیسران اور جوانوں کی ہزاروں ایسی امثال موجود ہیں جن پر پوری قوم کو فخر ہے ۔ آج بھارت وطن عزیز کے خلاف خوفناک سازشوں پر عملدرآمد کی تیاری میں مصروف ہے مگر پاک فوج اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دے گی۔ انشاء اللہ۔

ای پیپر دی نیشن