مولانا فضل الرحمان نے اتحادیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 6 دسمبر تک فیصلہ کرلیں کہ مارچ کرنا ہے یا حکومت کے ساتھ رہنا ہے۔
اس کو کہتے ہیں آر یا پار۔ ایسا ہی آر پار کرنے کا فیصلہ وہ پہلے بھی استعفے دینے کی دھمکی کی صورت میں بھی کر چکے ہیں جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا‘ دھمکی کے بعد انکے اتحادیوں نے استعفے لکھ بھی لئے ہونگے ‘ لیکن جمع کرانے کی ہمت اس لئے نہیں ہوئی کہ اگر ’’خدانخواستہ‘‘ منظور ہو گئے تو مراعات سے محروم ہونا پڑیگا اور یہ ہمارے کسی سیاست دان کو وارہ نہیں کھاتا۔ اس وقت مولانا سمیت پوری پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی مجبوریوں کے پیش نظر انکی ہمدردیاں حاصل کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں‘ لیکن یہ اتحاد صرف نام کا اتحاد نظر آتا ہے‘ جب حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکلنے کا وقت آتا ہے توہر پارٹی اپنی الگ مسجد بنا لیتی ہے۔ پچھلی بار پی ڈی ایم کے اتحاد میں (ن) لیگ کا غلبہ نمایاں تھا‘ ہر جلسے میں پی ڈی ایم کے قافلے کی رہنمائی مریم صاحبہ کرتی نظر آتی تھیں جس سے یہ گمان ہوتا تھا جیسے یہ اتحاد مولانا کے نہیں بلکہ مریم صاحبہ کے کہنے پر بناہو۔
بہرحال اب مولانا ایک بار پھر اتحادیوں کو للکار رہے ہیں اور ’آر یا پار‘ کا عَلم لے کر میدان میں اترنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپوزیشن اتحاد کو اہم فیصلوں کیلئے 6 دسمبر کی ڈیڈلائن دی ہے۔ دیکھتے ہیں مولانا منتشر پی ڈی ایم کو جوڑ کر حکومت کیخلاف میدان میں اتارنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ یہ چھے دسمبر کو پتہ چل جائیگا۔ ہم نے ہمیشہ مولانا کو ہر حکومت میں چھوٹی موٹی وزارتوں کے مزے لوٹتے ہوئے ہی دیکھا ہے‘ یہ پہلی حکومت ہے جس میں وہ سرکاری ’’کھابوں‘‘ سے محروم نظر آتے ہیں‘ یہی بے چینی انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دے رہی۔ عمران خان ایک ترپ کا پتہ کھیلتے ہوئے 6 دسمبر سے پہلے مولانا کو کوئی چھوٹی موٹی وزارت دے دیں پھر دیکھیں مولانا مارچ کرتے ہیں یا حکومت کے ساتھ رہتے ہیں۔پھر یہی پی ڈی ایم کے مقابلے میں حکومت کا دفاع کرتے نظر آئیں گے۔ نہیں یقین تو آزمالیں۔
٭…٭…٭
گیس بحران جاری‘ پریشر میں کمی کی شکایات صارفین مشکلات کا شکار۔خواتین پریشان‘ لوگ بغیر ناشتہ کے سکول و دفاتر جانے پر مجبور۔ گیس کا رولا آج کا نہیں‘ یہ تو اب پاکستانی عوام کیلئے دائمی مرض بن چکا ہے۔ اگر یہی مسئلہ کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو اب تک اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور تلاش کرلیا جاتا‘ کیونکہ وہاں پر حکومت کا ماٹو ہی عوام کو ریلیف دینا اور سہولتیں فراہم کرنا ہے جبکہ ہمارے ہاں اس معاملے میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ چونکہ گیس نہ ہونا اب معمول بن چکا ہے اس لئے عوام کو بھی اب عادی ہو جانا چاہیے‘ روز افزوں احتجاج کرنا بھی احتجاج کی قدر کھو دیتا ہے۔
چلیں مان لیں‘ عوام کے احتجاج پر اور اس پر ترس کھا کر اگر حکومت گیس فراہم کرکے بال عوام کی کورٹ میں ڈال دیتی ہے تو مہنگائی کے ہاتھوں بے چارے عوام پکائیں کھائیں گے کیا؟ کیونکہ گھر میں تو نہ دال ہے نہ آٹا‘ چینی ہے نہ گھی۔ یہ سب چیزیں تو ان سے نئے پاکستان نے چھین لی ہیں‘ گیس لے کر کیا کرینگے۔ اس لئے انہیں اب حالات سے سمجھوتا کرلینا چاہیے ‘ گیس ‘ گیس کی رٹ لگانا چھوڑ دیں۔ انتظار کریں‘ نیا پاکستان بنا ہے تو اس میں بہت سی چیزیں ناپید ہیں۔ انکے میسر آنے تک قوم کو آہستہ آہستہ گیس بھی میسر آجائے گی۔
٭…٭…٭
بھارت میں ایک دلہن کے منفرد برائیڈل فوٹو شوٹ نے سوشل میڈیا پر صارفین کی توجہ حاصل کرلی۔ جم میں خوبصورت ساڑھی پہنے ڈمبلز اٹھائے ورزش کرتی دلہن باہو بلی قرار دے دیا گیا۔
دلہن کو باہو بلی قرار دینے سے تو بادی النظر میں یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ خاتون اپنے شوہر نامدار کو زیر کرنے کیلئے ہی جم میں ورزش کر رہی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ شوہروں کو زیر کرنے کیلئے ورزش کی ضرورت نہیں‘ انہیں ادائوں سے ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کو اتنا مظلوم کیوں سمجھا جاتا ہے‘ جبکہ خواتین کو اپنے شوہروں کیلئے ’’ہوّا‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ مظلومیت کا شکار تو بے چاری خواتین نظر آتی ہیں۔ خواتین پر مظالم کی کہانیاں اکثر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ گھروں میںخواتین اپنے شوہروں کیلئے باہو بلی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ متذکرہ خاتون اگر ورزش کر رہی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اپنے شوہر کیلئے باہوبلی ثابت ہو۔ شادی کے بعد اس بے چاری پر ذمہ داریوں کا بے تحاشا بوجھ پڑ جاتا ہے‘ ممکن ہے وہ بے چاری بوجھ اٹھانے کی تیاری کر رہی ہو۔
اب معلوم نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ‘ بچپن سے تو یہی کہانیاں سنتے چلے آرہے ہیں کہ اکثر شوہر اپنی بیگمات کے ہاتھوں مظلومیت کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے اردگرد نظر گھمائیں تو اسکے برعکس ہی نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو خواتین ہی مظلوم نظر آتی ہیں۔ معاشرے میں خواتین کا ایک اہم مقام ہے جسے ہمارے دین نے تفویض کیا ہے۔اور پھر کائنات کی تصویر میں قدرت نے خواتین کے جو رنگ بھرے ہیں‘ اس پر تو علامہ اقبال بھی کہہ اٹھے ہیں کہ…؎
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اس لئے اس دلہن کو باہوبلی کا خطاب دینے پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں البتہ سنا ہے کہ بعض مرد اپنی بیگمات سے ’’تھوڑا‘‘ سا ڈرتے ہیں‘ وہ شاید انکی مجبوری ہوتی ہو۔ لیکن بعض مرد ایسے بھی ہیں جو کسی طرح بھی اپنی بیگم سے نہیں ڈرتے‘ بس ان بے چاروں کو وہ ڈرا دیتی ہے۔
٭…٭…٭
بھارتی ریاست اڑیسہ میں بارات میں بجنے والے ڈھول باجوں کی آواز سے 63 مرغیاں ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہو گئیں۔ مرغیوں کے مالک نے مقدمہ درج کرا دیا۔
یہ تو ان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے جو موسیقی کو روح کی غدا قرار دیتے ہیں۔ کبھی کبھی موسیقی تو واقعی طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ بالخصوص شادی بیاہ میں بجنے والے ڈھول ڈھمکے اور انکے ساتھ ان کا لیڈر بڑا ’’باجا‘‘ جو جب تک بجتا رہتا ہے پورے محلے کو سر پر اٹھائے رکھتا ہے۔ اسکے بجنے سے تو انسانوں کے دل دہل جاتے ہیں‘ بے چاری برائلر تو ویسے ہی نازک مزاج ہوتی ہیں‘ ان سے تو چلا پھرا نہیں جاتا‘ وہ دیکھنے میں ہی ہارٹ پیشنٹ لگتی ہیں‘ اس لئے ان کیلئے تو یہ باجے گاجے مضر ِ صحت ہیں۔ موسیقی اگر روح کی غذا ہوتی تو یہ ان بے چاری مرغیوں کیلئے ’’ روح کھچ‘‘ ثابت نہ ہوتی۔