اللہ تبارک و تعالی ٰکا بے حد شکر کہ تمام امور بخیر وعافیت انجام پا گئے ،گذشتہ دو ماہ سے زیر بحث چل رہی اہم ’’تعیناتی ‘‘ غیر متوقع طو ر پر نہایت آرام و سکون سے عمل میں آگئی ۔غیر متوقع طور اور آرام و سکون سے اسلئے لکھا کہ ا س تعیناتی یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کو لے کر تحریک انصاف نے جو شور و غوغہ مچا رکھا تھا اور جس میں صدر مملکت کی حمایت بھی شامل سمجھی جا رہی تھی تو وہ سب کچھ و قت آنے پر خود بخود ’’سراب ‘‘ ثابت ہوا جسے بجا طور پر اللہ کریم و رحیم کی خاص الخاص مہربانی ہی سے تعبیر کیا جانا چاہیے اور اس پر پوری قوم کو اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے ۔ اس سلسلے میں جہاں تک ہماری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو ہم اس اہم ترین تعیناتی کو پر سکون طور پر عمل میں لانے کا کریڈٹ وفاقی حکومت کو دیتے ہیں جس نے ایوان صدر کیطرف سے سمری منظور نہ کئے جانے کی صورت میں پلان بی پہلے سے تیار کر رکھا تھا اور یہی پلان بی ہی کا ڈر تھا جسے زہن میں رکھ کر صدر عارف علوی نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر لاہور جا کر سابق وزیر اعظم عمران خان کو سمری پر اپنے دستخط کرنے کی مجبور ی سے آگاہ کیا جس پر عمران خان بھی چوں چراں کئے بغیر مان گئے ۔یہاں اگر دیکھا جائے تو صدر عارف علوی نے اگر ایک طرف آئین و قانون کی پاسداری کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف صدر مملکت کی حیثیت سے اپنے اُٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی بھی کی ۔حلف میں آئین کی رو سے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر کی ا پنی پارٹی وابستگی سے لاتعلقی یقینی ثابت کرنا ہوتی ہے مگر سب نے دیکھا کہ صدر عارف علوی اپنے پارٹی سربراہ کے حضور بمعہ سمری کے پیش ہوگئے جو کسی طور کسی بھی ان کے ریاستی منصب کے شایان شان نہیں تھا۔بدھ کی رات سات بجے سے جمعرات کی رات سات بجے تک کے یہ چوبیس گھنٹے ملکی تاریخ میں ’’اہم ترین اور
حساس فیصلوں ‘‘کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں ہے جن میں ہونے والے واقعات کچھ یوں ہوئے کہ بدھ کی رات تک سمر ی تیار کر لی گئی جو اگلی صبح وزیراعظم ہاؤس کو موصول ہوئی اور اسی دن وقت ضائع کئے بغیر ایوان صدر بھیج دی گئی اور پھر وہاں بھی وقت ضائع کئے بغیر’’ ضروری تکلفات ‘‘ پورے کرنے کے بعد رات سات بجے یہ صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد منطور ہو گئی اور یوںسمری کے حوالے سے ملک میں گذشتہ دو ماہ سے جاری سیاسی ہیجان انگیزی بلکہ بے یقینی بھی دم توڑ گئی ۔سیاسی ہیجان انگیزی و بے یقینی کے خاتمے میں کہیں زیادہ اہم کردار افوجی مائند سیٹ کا ہے جسے دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ فوجی کمان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فوجی مائند سیٹ بھی تبدیل ہو چکا دکھائی دے رہا ہے تو یہ کسی طور غلط نہیں ۔ اس تنا ظر میںسابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی آخر ی تقریر قابل تعریب ہی نہیں قابل قدر بھی ہے جس میں انہوں نے بار بار ملکی سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت کو غلط قرار دیا بلکہ اس غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ کیلئے ملکی سیاسی عمل میں فوج کے کسی بھی قسم کے کردار ادا نہ کئے جانے کی یقین دھانی بھی کروائی جو دیکھا جائے تو جمہوریت پر بھی ایک طرح سے احسان سے کسی طور کم نہیں ۔کہ یہ بار بار کی فوجی مداخلتیں ہی تھیں جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے اور ملک کبھی جمہوریت کی پٹڑی سے اترجاتا تو کبھی چڑھ جاتا ۔ جہاں تک اس حوالے سے ہمارے تجزئیے کا تعلق ہے تو مقتدر حلقوں کی طرف سے اس قسم کی مائند سیٹ کی تبدیلی کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہونے کے سو فیصد امکانات روشن ہیں کیونکہ اب جبکہ تمام چیزیں چونکہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ پر آرہیں ہیں تو ایسے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سیاستدان جن میں سرفہرست پی ٹی آئی والے سیاستدان اور جو اپنے آپ کو باوجود غلطیوں کے بھی عقل قل سمجھ رہے ہیں، اب فوج کی طرح اپنی اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے بلکہ ان کی تلافی کرتے ہوئے پارلیمان کے تقدس کو بحال کرنے میں اپنا اپنا حصہ یقینی طور پر ڈالیں گے بلکہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کی غرض سے انتخابی اصلاحات پر بھی اکٹھے ہوں گے ۔متذکرہ چوبیس گھنٹوں کے عمل کو پر سکون و خو ش آئند بنانے میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کردار بھی لائق تحسین قرار پاتا ہے جنہوں نے جی ایج کیو کی طرف سے تیار کردہ سمری پر کسی قسم کا اعتراض یعنی اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کئے بغیر اسے من و عن قبول کر لیا جو بھی در حقیقت دیکھا جائے تو اس میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب بھی وقت کے حالات و تقاضوں کی نزاکت کو اب بہتر طور سمجھ چکے ہیں، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی نظر ڈالی جائے تو اس کی قیادت کی سوچ میں بھی ماضی کے مقابلے میں مثبت تبدیلی آچکی ہے بلکہ سیاسی اسرا ر و رموز کے سخت ترین مرحلوں سے گذر نے کے بعد ملکی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کی بجائے افہام و تفیہم کی پالیسی اپنا ئے ہوئے ہے جس کیلئے سابق صدر اور پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری بھی قابل تعریف ہیں ۔ آرمی کمان کی میرٹ پر تبدیلی کے ساتھ ساتھ فوج مائنڈ سیٹ میں بھی مثبت تبدیلی سے جہاںملک کے خارجہ معاملات میں سدھار پید ا ہونے کی قومی امکانات دکھائی دے رہے ہیں وہاں ملک میں’’ سیاسی استحکام‘‘ کا وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کے ہم بھی بے تابی سے منتظر تھے ۔باقی رہی بات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیر آباد حملہ کے بعد اِن کی سوچ میں بھی تبدیلی آچکی ہے جسے بھی ملکی سیاسی استحکام کی علامت سمجھا جانا چاہیے مگر چونکہ اب بات رہ گئی ہے فیس سیونگ کی تو چونکہ دھرنا خان صاحب کی سیاسی ضرورت ہے لیکن پھر بھی یہ کہ چلیں، دھرنا اگر دینا ہی ہے تودے دیں مگر دو دن سے زیادہ نہیں کونکہ اس سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور یہ وہی عوام ہیں جن کے سمندر لانے کے دعوے وہ کرتے رہتے ہیں ۔