بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اسلامیان برصغیر کے ان جلیل القدر راھنماوں میں سے تھے جن کی تمام زندگی اسلام کی سربلندی اور فرنگی حکمرانوں سے آزادی کے لئے بھر پور جدوجہد میں گزری اور اس حوالے سے بے مثال قربانیاں دیں یہاں تک کہ ان کی زندگی کا ہر تیسرا دن جیل میں گزرا اور اس زمانے میں ان کے اخبار زمیندار کی ایک لاکھ سے زیادہ کی ضمانتیں ضبط ہوئیں مگر ان پاے استقلال میں کوئی لغرش نہ آئی بلکہ ہر مشکل کے بعد زیادہ سرگرم عمل ہوئے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے ان کے قلم کی کاٹ کو مصطفی کمال کی تلوار سے تشبیہ دی اور قائد اعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں خطاب کرتے ہوے کہا کہ اگر ظفر علی جیسے دو چار افراد اور مل جائیں تو غلامی کی زنجیریں بہت جلد کٹ جائیں۔ بقول مولانا صلاح الدین احمد کہ ہماری تحریک آزادی کا تذکرہ مولانا ظفر علی خان کے نام اور کام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتامولانا ظفر علی خان کو اللہ تعالی نے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔وہ قادر الکلام شاعر، بے بدل ادیب، بہترین مترجم،بے باک خطیب،نڈر صحافی، مقبول عوامی رہمنا سب سے بڑھ کر پکے اور سچے مسلمان تھے۔ زندگی کے جس شعبہ میں کام کیا یا جس سرگرمی میں حصہ لیا اس کا مقصد واحد اسلام کی سربلندی، ملت اسلامیہ کی نشاستہ ثانیہ اور فرنگی سامراج سے آزادی رہا۔ عشق رسول ان کا خاص وصف تھا اور سرکاردوجہاں سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں
ہوتا ہے جہاں نام رسول خدؐا بلند
ان محفلوں کا مجھ کو نمائندہ کردیا
بنا کر سرکاردوجہاں کا مجھے غلام
میرا بھی نام تاابدزندہ کردیا
مولانا ظفر علی خان کو اسلامی شعائر و روایات سے گہرا شغف تھانہ صرف ان پر عمل پیرا ھوتے بلکہ کسی حال میں ان کی بے حرمتی یا توھین برداشت نہ کرتے۔
1910 میں ایڈورڈہفتم کے انتقال پر شاہی مسجد لاہور میں تعزیتی جلسہ ہوا جس شاہ ایڈورڈ ہفتم کی مغفرت کیلئے دعا کی اپیل کی گئی تو نوجوان ظفر علی آٹھ کھڑا ہوا کہ ایک غیر مسلم کے لئے دعا مغفرت جائز نہیں ہے اس طرح 1911جارج پنجم رسم تاج پوشی کے لئے دہلی کے بڑے بڑے علما اور مشائخ استقبالیہ قطار میں کھڑے تھے اور جھروکوں سے درشن کے منتظر تھے کہ عصر کی نماز کا وقت ھوگیا جارج پنجم کی سواری میں تاخیر ہورہی تھے نوجوان ظفر علی آگے بڑہے اور لال قلعہ پر اذان دے کر سبزہ زار پر کوٹ بچھا کر نماز شروع کرکے اللہ کی واحدانیت وکبریت کا اظہار کرکے دعوت دی کہ حقیقی خدا کے سامنے جھکو ۔ مولانا ظفر علی خان آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے مگر دوسرے مسلمان رہنماوں کی طرح کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی وطن کی جنگ لڑ رہے تھے مگر کانگریس کے اجلاس کراچی میں جب نماز عصر کے لئے اجلاس ملتوی نہ کیا گیا تویہ کھڑے ہوے اور کانگریس سے الگ ہو نے کا اعلان کردیا اور فرمایا
گنبد کا نگریس سے آرہی ہے یہ صدا
نیشنلسٹ ہے وہی جسے ضد ہو نماز سے
پونا میں کانگریس کا اجلاس تھا اجلاس کے بعد آغا محل تالاب پر گاندھی اور مولانا موجود تھے کہ گاندھی نے کہا کس قدر شفاف پانی ہے کہ اس میں شیواجی کی تصویر صاف نظر آرہی ہے مولانا نے اسی وقت کہا کہ مجھے اورنگزیب کا جوتا بھی صاف نظر آرہا ہے جس پر گاندھی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ایک بار مولانا کانگریس کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے کہ ایک مسلمان مقرر نے کہہ دیا کہ میں مذہب پر قومیت کو ترجیح دیتا ہوں جس مولانا کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں بھلے مسلمان ہوں پھر کچھ اورقادیانیت کے خلاف جہاد کیلئے عوام اور علما کو بیدار کرنے کیلئے ان کا کردار سب سے نمایاں ہے قادنیوں کو اقلیت قرار دینے کی تجویز سب سے پہلے انہوں نے پیش کی وہ انھیں انگریز خود کاشتہ پودا قرار دیتے ان کی نظموں کی ایک مکمل کتاب ارمغان قادیان بھی ہے۔
میرے والد ماجد حکیم عنایت اللہ نسیم سوھدروی مرحوم کو مولانا کو قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے وہ بتایا کرتے تھے کہ مولانا کا معمول تھا کہ رات کے پچھلے پھر بیدارہوتے نماز تہجدادا کرکے تلاوت کرتے پھر نماز فجر ادا کرکے لمبی اور تیز تیز سیر کرتے واپسی پر سادہ اور پنجاب کا روائتی ناشتہ کرتے پھر دن کے معمولات کا آغاز ہوجاتا۔مولانا کی صلاحتیوں کا اندازہ اس واقعہ سے ہو جاتا ہے کہ لاہور میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ تھا علامہ اقبال عمرانیات پر مقالہ پیش کرنے کھڑے ہوے تو کہا کہ اپنا مقالہ انگریزی میں پیش کروں گا کیونکہ فلسفایانہ اصطلاحات کے باعث اردو میں سمجھا نہ سکوں گا مولانا کھڑے ہوئے اور کہا کہ اردو اتنی بے مایہ زبان نہیں ہے مشکل سے مشکل اصطلاحات بھی پیش کی جاسکتی ہیں علامہ نے فرما یا بے شک مولانا جیسے فاضل کے لئے مشکل نھیں مگر میں اپنی مشکل بتا رہا ہوں اس پر شیخ عبدالقادر نے کہا کہ مولانا اورپطرس نوٹس لیں گے بعد خاص نکات اردو میں پیش کردیں۔علامہ نے انگلش میں مقالہ پیش کیا مولانا نے کوئی نوٹس نہ لئے پطرس نوٹس لیتے گئے جب علامہ مقالہ پیش کرچکے تو مولانا اٹھے اور مقالہ کا مفہوم اردو میں پیش کردیا جو الفاظ اور تراکیب استعمال کیں وہ علامہ کے مقالہ کے عین مطابق تھا جب ظفر علی بیان کرچکے تو علامہ نے فرما یا کہ 98 فیصد میرے خیالات کی ترجمانی کا حق ادا ہوا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا خرابی صحت کے باعث عملی سرگرمیوں سے الگ ہوگئے-آخری تقریر جامعہ پنجاب میں اردو کانفرنس میں کی جہاں اواز مدہم ہونے پر چند طلبہ نے آوازیں کسے جس پر مولانا نے فرما یا کبھی دنیا تماشہ تھی اور ہم تماشائی آج ہم تماشہ ہیں اور دنیا تماشائی۔ جہاں چڑھتے سورج کی پوجا ہو وہاں ڈوبتے سورج کو کون پوجتا ہے مولانا کا یہ کہنا تھا کہ کانفرنس میں موجود بڑے بڑے دانشورآبدیدہ ہوگئے ۔اس کے بعد کچھ عرصہ مری اور پھر کرم آباد رہے ۔بالاآخر یہ مجاہدوآفتاب حریت27 نومبر کو غروب ہوگیا اور کرم اباد اپنے والد کے پہلو میں سپردخاک ہوئے۔