سیاستدان اپنی اصلاح کریں 


نئے سپہ سالار کی تعیناتی کے حوالے سے وطن عزیز میں کئی روز سے جاری ہیجان ختم ہوگیا ہے ،تمام چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں ہیں اور جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف ،جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کر دیا گیا ہے اور جنرل قمر باجوہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں ۔بظاہر سب ٹھیک لگ رہا ہے لیکن سیاسی بساط کے بعض کھلاڑی عندیہ دے رہے ہیںکہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو وہ کچھ بھی ٹھیک نہیں رہنے دیں گے جیسا کہ ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں ۔شاید اسی اندیشے کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں واضح الفاظ میں سیاستدانوں کو سنگین نتائج کی حتمی تنبیہ کی ہے اور صلح جوئی کا راستہ اپنانے کی تجویز دی ہے۔ انھوں نے پاکستان کی پچھتر سالہ فوجی اور سیاسی تاریخ کو چند الفاظ میں کھول کر بیان کر تے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ فوج اپنی اصلاح کر رہی ہے لہذا سیاستدان بھی اپنے رویے درست کر لیں کیونکہ ملک معاشی لحاظ سے سنگین بحرانوں کا شکار ہے اسلئے سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا ،میں نہ مانوں کی پالیسی ترک کر دیں اور سیاسی نتائج کو قبول کرنے کی روش اپنائیں ،انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کہ جھوٹے سازشی بیانیے کے ذریعے ملک میں افراتفری پیدا کی گئی ،پہلے جیتی پارٹی کو سلیکٹڈ اور پھر امپورٹڈ حکومت کا نام دیا گیا ،فوج کی مداخلت غیر آئینی تھی سو فروری میں فیصلہ کیا کہ اب افواج سیاست سے دور رہیں گی۔جناب جنرل قمر باجوہ نے کچھ اسی قسم کے جذبات کا اظہار 2017 میں کیا تھا کہ اگر دھرنے میں فوج کا کردار ثابت ہو جائے تو میں مستعفی ہو جائونگا اور اب انھوں نے سازشی بیانیوں کو دوسری مرتبہ مسترد کر کے ایسے بیانیے گھڑنے والوں کی سیاست اور صداقت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے! جسے عوام الناس سمجھ گئے ہیں اور جو نہیں سمجھے انھیں وقت سمجھا دے گا۔
بلاشبہ ملکی و قومی بحرانوں کے پیچھے مفاد پرست سیاستدانوں کی ناقص حکمت عملیاں ہیںجنھوں نے سیاست کو خدمت نہیں بلکہ بزنس سمجھا بایں وجہ فوج کو مداخلت کرنا پڑتی تھی اور خودی بلا کر مداخلات کا الزام لگا کر ملکی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا عام وطیرہ بن چکا ہے جو کہ جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔کسے انکار ہے کہ ملک و قوم کا وقار اور سلامتی افواج کے وقار اور استحکام سے قائم رہتا ہے تو ایسے میںجناب قمر باجوہ کا ملکی حالات پر تبصرہ درست ہوسکتا ہے کہ اداروں کے خلاف الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتنی مناسب ہے لیکن ایسا کیسے ممکن ہے ؟ جبکہ مروجہ قوانین کا اطلاق تو ہمارے ملک میں صرف عام آدمی پر ہوتا ہے وطن عزیز کی اتنی اہم تعیناتی کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اور جھوٹے بیانیوں کو لیکر اداروں کے خلاف زہر گھولا گیا جس میں کمی نہیں آئی بلکہ ہتک آمیزانہ تنقید سوشل میڈیا پر جاری ہے کوئی خاص ایکشن نہ لینے کیوجہ سے حوصلے بڑھ چکے ہیںکہ سیاسی و معاشی تباہی برپا کرنے والوں نے اب دفاعی نطام کوہدف بنا رکھا ہے خاص طور پر بعض سیاسی اور صحافتی کاریگر اس مضموم پریکٹس میں متحرک ہیںجبتک وہ قانون کے شکنجے سے آزاد رہیںگے اداروں کا وقار دائو پر لگا رہے گا اور غیر یقینی کا خاتمہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ سبھی جان چکے ہیں کہ سیاسی کریگروں کی ساری جدوجہد پھر وہ مہنگائی مارچ کے لیے ہو یا حقیقی آزادی کے لیے اس کا مطلب کرسی کا حصول اور ملک کے اندرون و بیرون صرف اپنے نام کا سکہ چلانے کے سوا کچھ نہیں ہے مزیدحقیقی مارچ بھی اہم مذکورہ تعیناتی روکنے کے لیے تھا جو اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور اب فیس سیونگ کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کا پلان بنایا جا رہا ہے کیونکہ عوام کی موجودہ حکومت سے وابستہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ جو تبدیلی چار برسوں میں نہ آسکی وہ اب آجا ئے گی جوکہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں اسلئے حالات متقاضی ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے الوداعی خطاب کو مینارہ نور سمجھا جائے ۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اداروں کے وقار کو قائم رکھتے ہوئے غیر آئینی رویے ترک کریں اور انتشار و تخریب کی سیاست ختم کر دیں بصورت دیگر صرف ادارے ہی نہیں عوام بھی ان کا محاسبہ کریں گے ۔ ہم پر امید ہیں کہ نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرجو کہ اپنی نیک نامی اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں اور کرپشن کے معاملے پر زیرو ٹالرینس رکھتے ہیں یقینا ان کی تعیناتی ملک و قوم کے لیے خیر و بہتری کی ضمانت ہوگی اور افواج اپنے آئینی کردار تک محدود رہ کر ملک و قوم کے مفادات میں کام کریں گی ،سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا بھی مناسب حل نکالا جائے گا تاکہ عوام کو مسلسل اعصاب شکن سیاسی شعبدہ بازیوں سے نجات ملے کہ ایک احتجاج ختم ہوتا دوسرا شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آجکل آزادی مارچ نے سارے مسائل سے نظر ہٹا رکھی ہے حالانکہ ا مپورٹڈ حکومت سے سائفر سازش اورمڈ ٹڑم الیکشن سمیت سبھی مطالبے اور بیانیے نئے یوٹرن کے ساتھ پے در پے ناکامیوں کے ساتھ اپنی اہمیت کھو چکے ہیںلہذا حقیقی آزادی کا ڈھول پیٹنا بند کر دیں، عوام کے لیے کام کریں اورکھوئی ساکھ بحال کریں ،منزلیں خود خیر مقدم کریں گی کیونکہ اب تو ہر کوئی کہہ رہا ہے  :
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی 
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی 

ای پیپر دی نیشن