مصر کے شہر شر م الشیخ میں حال ہی میں کو پ 27کانفر نس اختتام پذیر ہو ئی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ماحو لیا تی تباہ کاریوں اور مو سمیاتی تبدیلیوں سے متاثر پاکستان سمیت دنیا کے 134ممالک کے بے پناہ مالی نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا کیونکہ اس مقصد کیلئے باقاعدہ طو ر پر ایک فنڈ قائم کردیا گیا ہے۔گو کہ مسئلہ کی اصل جڑ صنعتی ممالک کی فیکٹر یوں، کار خانوںسے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائڈ ہے جس کو روکنے کیلئے کسی فارمو لا پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ فضا میں اسی کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کو بڑھنے سے روکناہی گلو بل وار منگ اور مو سمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے اہم قدم ہے اور اس کیلئے ہمیں نہ صر ف توانائی کی پیداواربلکہ اس کے استعمال کے روائتی ذرائع کو خیر باد کہہ کر قابل تجدید توانائی ذرائع یعنی گرین انرجی یا سو لر انرجی کو اختیار کرنا ہو گا۔یہ بات اب زیادہ نا قابل فہم نہیں ہونی چاہئے کہ پور ی دنیا میں توانائی کے روائتی ذرائع اب زیادہ دیر قابل عمل ہوںگے نہ ہی اس کے اخراجات برداشت کئے جا سکیں گے ۔ توانائی ماہر ین ایک عرصہ سے ہماری سماعتوں پر دھیرے دھیرے دستک دے ر ہے ہیں کہ کلین انر جی کا دور آچکا ہے اور اب اسی کو اختیار کرنے میں ہمار ی عافیت ہے۔دنیا بڑ ی تیزی سے اس دستک کو نہ صر ف غور سے سن رہی ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا شر وع کر چکی ہے مگر ہم حسب معمول ہر معاملہ میں سست واقع ہو ئے ہیں۔اس وقت پاکستان سمیت دنیابھر میں گرین انرجی کمپنیاں جنھیں سو لو انر جی توانائی کمپنیاں بھی کہہ سکتے ہیںوجود میں آچکی ہیں اور لو گوں کو بڑ ی سنجیدگی سے سو لر انر جی کی جانب آنے پر آمادہ کر رہی ہیں کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں توانائی کا مسئلہ پیچیدہ رخ ا ختیار کر رہا ہے ا ور ماہر ین سرجو ڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے۔ مو سمیاتی تبدیلیاں گو کہ قدرتی ہو تی ہیں لیکن وسیع تر معنو ں میں ہم اس کی تشریح یوں کر سکتے ہیں کہ جب در جہ حرارت اور موسمیاتی پیٹرن میں طویل مدتی تبدیلیاں پیدا ہو نے لگیں تو ہم اسے مو سمیاتی تبدیلی کہتے ہیں۔عالمی سطح پر مو سم سو رج ،ز مین ، سمندروں، ہوائوں ،بارش ، برف،صحرا ئوں اور جنگلات کے باہمی تعلق کا نا م ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی ایک شہر کے موسم کو وہاں بہت بارش اور دیگر کچھ عوامل سے عبارت کر سکتے ہیں مگر عالمی مو سم دنیا کے کچھ اہم ترین مقامات کے اوسط مو سم کو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بہت سے مقامات کا درجہ حرارت بہت زیادہ اور بہت سے مقامات کا بہت زیادہ گر م ہو تا ہے۔ ایک دوسر ی تعریف کے مطابق گلو بل وارمنگ کا زمین کے فضا ئی ماحول سے براہ راست تعلق ہے۔گلوبل وارمنگ کو ایک فقرے میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ گرین ہائو س گیسز کا ا خراج زمین کے گرد ایک غلاف کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ سو رج کی شعائیں اسے پھاڑ کر زمین کی جانب آتی ہیں پھر اندر ہی مقید ہو کر رہ جاتی ہیں۔یہ زمین میں جذب ہو کر دو بارہ ریڈ ی ایشنز کی صور ت میں واپس فضا کے اس غلاف کی جانب جاتی ہیںاور اس سے دو بارہ نکلنے کی کوشش کرتی ہیں مگر مضبوط اور غیر معمولی کثیف غلاف اسے باہر نکلنے نہیں دیتا جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہو تی ہے۔یہ گرین ہائوس گیسز ہو تی کیا ہیں۔کوئلہ تیل ،قدرتی گیس اور فیول فوسل کے ذریعے سے بجلی پیدا کرنے سے بہت بڑے پیمانے پر گرین ہائوس گیسز کا اخراج ہو تا ہے ۔ تین چوتھائی بجلی فیو ل فو سل سے ہی پیدا کی جاتی ہے جبکہ ایک کوارٹر بجلی ہوا،سور ج کی ر و شنی ا ور دیگر قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔سیمنٹ، فو لاد،الیکٹر انکس ،پلاسٹک،ملبو سات اور دیگر اشیاء کی مینو فیکچرنگ یا صنعتی عمل کیلئے درکار حرارت فوسل فیول سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔اسی طر ح مائننگ اور دیگرصنعتی عمل میں بھی گیسز پیدا ہو تی ہیں۔کسی بھی مقا صد کیلئے جنگلات کی کٹائی کے نتیجہ میں گیس ایمشن ہو تی ہے۔جب د رختوں کو کاٹا جاتا ہے تو کاربن ڈائی آکسائڈ بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے جو ان میں سٹور ہو تی ہے کیونکہ جنگلات کار بن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں۔جنگلات کو بر باد کرنے کے نتیجہ میں ان گیسز کو ماحول سے باہرنکال دینے کے قدرتی عمل کی صلاحیت اور طا قت محدود ہو جاتی ہے۔یہ گرین ہائو س گیسز ہی ہیں جو اپنے پیدا کر دہ فضائی انتشار کی وجہ سے بڑے بڑے طو فانوں ،شدید بارشوں ، قہر ڈھا دینے والی گری، قحط سالی اور جنگلا ت کی آگ کا باعث بنتی ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق اس وقت گلوبل وارمنگ کی یہ صو رتحال واپس آنے کی حالت میںنہیں بلکہ اس میں ا ضا فہ ہی ہو گاحتیٰ کہ زمین پر موجود انسانوں سمیت ہر طر ح کی زندگی ختم ہو جائیگی۔ہم اپنالائف سٹائل تبدیل کرکے مو سمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آپ کے علم میں یہ ہو ناچاہئے کہ پوری دنیا میںحد ت پیدا کرنے والے لاتعداد عوامل میں اربوں فوٹو کاپی مشینوں سے پیدا ہونیوالی حدت قابل ذکر ہے پھر یہ کہ جب پور ی دنیا میں بلا وجہ ایک ایک کی جگہ دو دو تین تین او ر بسا اوقات اس سے بھی زیادہ فو ٹو کاپیا ں کرانے سے ضائع ہونیوالے کاغذ کو ڑا کر کٹ میں اضافہ کا باعث بنیں گے اور پھریہ اسی حساب سے بڑھ کر فضا ئی آلودگی کا باعث بنے گا۔ اکثر اوقات کو ڑا کر کٹ جلا دیا جاتا ہے جس کا دھواں فضا کو دھواں دار بھی کرتا ہے اور حدت بھی پیدا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں پیپر لیس آفس اورتعلیمی ادارے وجود میں آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھرمیں جہاں بھی جن مکانوں ، دفاتر اور کار و باری اداروں میں فالتو بلب جل رہے ہو نگے وہ فضا میں حدت پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں، بجلی بھی ضائع ہو رہی ہیں اورآ پ کی جیب پر بھی ایک بوجھ پڑ رہا ہے لہٰذا ضر و ری ہے کہ ہم فالتو بتیاں بجھا کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔نئی چیزیں بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ انھیں ری سائیکل کریں،فو ٹو کاپیاں کرانے کے غیر ضرور ی رجحان کو روکیں،کسی بھی پرنٹڈ کاغذکی دوسری سائڈ بھی استعمال اگر کی جاسکتی ہو تو ضرو رکریں۔ٹی وی سمیت بجلی کی وہ تمام چیزیں جو رات کے او قات میں مکمل آف کی جا سکتی ہیں انھیں ضرو ر پلگ آف کر دیں ۔ظاہر ہے فر ج پلگ آف نہیں کیا جا سکتا ۔فرج اور بلب سے لے کر اے سی تک تمام اشیاء انر جی ایفی شنٹ خریدیں۔ ایسی چیزیں جن کے خراب ہو نیکاخدشہ ہو انھیں برقت ہی بدل لیں۔کو شش کریں کہ کپڑے ا نڈور سوکھنے کیلئے ڈالیں۔کپڑے دھونے کیلئے گرم کے بجائے ٹھنڈے پانی کو ترجیح دیں۔ایل ای ڈی لائٹ بلب استعمال کریں ،یہ مہنگے ہونیکی وجہ سے خریدنے میں مہنگے تو ہیں مگر دیر پا ہو تے ہیں اور بجلی کی بچت کرتے ہیں۔پانی کی پلاسٹک بو تلیں خر ید نا بند کریں اور نلکے کا عام پانی پینے کو تر جیح دیں، یہ دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے ۔ڈ سپو ز بل کے بجائے ری یو ز بل نیپیز ماحول دو ست ثابت ہو سکتے ہیں ۔کسی بھی طر ح کے کپڑوں کو ان ڈرائیرز میں نہ سکھائیں جن میں گرم ہو ا استعمال ہو تی ہے ۔پانی ضائع ہو نے سے بچانے کیلئے پائپو ں کی لیکج کو کنٹرو ل کریں۔زیادہ سے زیادہ سبز یاں اور ہر بل مصنو عات گھروں پر اگائیں۔اس سے ماحول بھی بہتر ہو گا ۔بچت بھی ہو گی۔گاڑی کو ایک رفتار پر چلائیں، آہستہ چلائیں ا ور آہستہ آہستہ ایکسیلریٹر دیں،ایک بار جتنی بھی رفتار مقر ر کر لیں پھر اسی پر چلائیں۔اس اقدام سے سالانہ آپ کے پٹرو ل ڈیزل گیس کی کھپت میں حیرت انگیز کمی واقع ہو گی ۔
پیک خوراک کے بجائے مقامی سبزیاں پھل خریدیں ورنہ زیادہ آپ بہت ویسٹ کا ذریعہ بنیں گے۔شاپنگ کیلئے ری یو زبل اورکپڑے کا بیگ استعمال کریں،عا م شاپر آلو دگی کا باعث بنتے ہیں،اسی طر ح پانی کیلئے بھی ری یوزبل بوتل یا کافی کیلئے بھی ایسی ہی بوتل استعمال کریں، ٹیک او ے لنچ اور دیگر اشیاء خورو نوش کیلئے ری یوزبل کنٹینر یا خالی لنچ باکس خود لیکر جائیں۔ٹوتھ برش کروڑوں کی تعداد میں استعمال ہو تے ہیں ا ور کو ڑا پیدا کرنے کی بہت بڑی وجہ بنتے ہیں،ماہر ین کہتے ہیںاپنے بل آن لائن حاصل کریں ا ور آن لائن ہی پے کریں، گھروں میں لیف لیٹس اور بر وشر پھینکنے کاسلسلہ بند کیاجائے ،یہ بہت زیادہ آلو دگی کا باعث بنتے ہیں۔گھر میں باغبانی اور گملوں کیلئے بارش کا جمع کیا گیا پانی استعمال کریں۔دنیابھر میں شیمپو اور کاسمیٹکس کی بوتلیں پلاسٹک کا کوڑ ا بڑھانے میںبڑ ا اہم کردار کرتی ہیں۔کم ازکم اگر خواتین ساشے والا شیمپو استعما ل کریں تو بڑی حد تک پلاسٹک و یسٹیج میں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ دنیا بھرمیں ٹرانسپور ٹ بھی فضائی آلودگی پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اورانجن کی حدت بھی کاربن پرنٹ میں اضافہ کی بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھرمیںالیکٹر ک گاڑیاں بڑ ی تیزی سے وجود میں آرہی ہیں تاکہ ایک گرین اور کلین انر جی کی منزل کی جانب سفر تیزی سے طے ہو سکے۔ اب تو دنیا بھر میں پٹرو ل کا ایسا معیار قائم کیا جارہا ہے کہ جس کے نتیجہ میں گاڑیاں کم دھواں چھو ڑیں۔ اسی لئے یہ ضرو ری ہے کہ گاڑیوں کی باقاعدہ سر و س کرائی جائے تاکہ وہ کم سے کم فضا ئی آلودگی کا باعث بنیں۔اس وقت صرف بھارت میں الیکٹر ک گاڑیاں بنانے والی 400کمپنیاں مو جو د ہیں۔ چین کا ذکر کریںتو اس نے 2021میں اتنی الیکٹر ک گاڑیاں فروخت کیںکہ دنیا کے تمام مما لک نے مل کر 2020اتنی الیکٹرک گاڑیاںفرو خت نہیں کیں۔چین نے اس شعبہ میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ اب تک الیکٹرک گاڑیوں کے 300 ماڈل بناچکا ۔ پور ی دنیا میں اس و قت 30سرکردہ الیکٹر ک مینو فیکچرر کمپنیاں ہیں جو بڑی تیزی سے آرڈر پورے کر رہی ہیں۔