حکمرانوں کیلئے سٹیٹ بنک اور وفاقی ادارہ شماریات کی چشم کشا رپورٹیں 

سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ڈیڑھ ماہ کیلئے مانٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس میں شرح سود 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کر دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں سٹیٹ بنک کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق مہنگائی کا دبائو مسلسل اورتوقعات سے زیادہ ہے۔ شرح سود میں 100 بیسز پوائنٹ اضافے کا مقصد مہنگائی کو بڑھنے سے روکنا اور پائیدار شرح نمو کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اعلامیہ میں تصدیق کی گئی ہے کہ مالی سال 2023ء میں دو فیصد شرح نمو اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً تین فیصد رہنے کی توقع ہے۔ مرکزی بنک کے اعلامیہ کے مطابق بلند غذائی قیمتوں اور’’کورانفلیشن‘‘ کی وجہ سے اوسط مہنگائی مالی سال2023ء میں 21 سے 23فیصد رہنے کی توقع ہے۔  سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال ستمبر کے مہینے میں بڑی صنعتوں کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت کمزور رہی اور برآمدی نوعیت کے شعبوں میں مثبت نمو ہوئی۔ مزید براں سیلاب کی وجہ سے چاول اورکپاس کی فصلوں میں بھاری پیداواری نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے باعث تحریک  مل رہی ہے جس سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات نے بھی ملک میں تسلسل کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ سے متعلق اپنی جاری کردہ رپورٹ کے ذریعے عوام کے عملاً زندہ درگور ہونے کی عکاسی کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلسل چھ ہفتوں سے مہنگائی میں اضافے کا رجحان ہے اور مہنگائی کی شرح 30 اعشاریہ 16 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 0.48 فیصد اضافے کے ساتھ 30.16 فیصد ہو گئی ہے۔ ایک ہفتے میں 19 اشیاء کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 23 اشیاء کے دام مستحکم رہے ہیں اور صرف 9 اشیاء کے نرخوں میں معمولی کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران پیاز کے نرخوں میں فی کلو چار روپے 48 پیسے اضافہ ہوا۔ اسی طرح چینی کے نرخوں میں ایک روپے 20 پیسے فی کلو اضافہ ہوا اور آلو‘ تازہ دودھ‘ چاول‘ لہسن‘ بیف کے نرخ بھی اسی تناسب سے بڑھے ہیں جبکہ فی درجن انڈوں کے نرخوں میں 21 روپے پچاس پیسے کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ چھ ہفتے سے مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان ہے۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت کے لیڈران اپنے اپوزیشن کے دور میں بالخصوص مہنگائی سے متعلق عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل پر فوکس کرکے حکمرانوں کی پالیسیوں کو کڑی تنقیدکا نشانہ بناتے اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور اپنے اقتدارکیلئے عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دکھا کرحکومت وقت کے خلاف ان کے دل گرماتے اور اپنے لئے ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں اور جب انہیں عوامی مینڈیٹ کے طفیل مسند اقتدار پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو نہ صرف وہ عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کے مسائل سے بے نیاز ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی عاجلانہ مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے باعث عوام کے ان مسائل میںمزید اضافے کی نوبت  بھی لے آتے ہیں۔ اس کے برعکس حکمران اشرافیہ طبقات کے اللے تللوں سے ملک کی معیشت پر مزید بوجھ پڑتا ہے اور قومی خزانے کو بھی نقب لگتی ہے اور یہ سارا بوجھ راندۂ درگاہ عوام کی جانب ہی منتقل کیا جاتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں  قیام پاکستان سے اب تک عوام کی درگت بنانے والے مناظرہی سامنے لائے جاتے رہے ہیں۔ بالخصوص سلطانی جمہور (عوام کی حکمرانی) میں تو جمہوریت کے ثمرات براہ راست عوام تک کبھی پہنچ ہی نہیں پائے اس لئے حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں بڑھتی مہنگائی سے بے چین ہوئے عوام کا سسٹم کے استحکام سے کوئی سروکار نہیں رہتا اور وہ جمہوریت کے خلاف ماورائے آئین اقدام کو بھی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لینے کے مصداق قبول کر لیتے ہیں۔
بے شک دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی مختلف وجوہات کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے مگر ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے حکمران طبقات نے خوشحالی کی طرف گامزن کئے گئے قائداعظم کے پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی جانب دھکیل کر اس کی معیشت کو کنگال کرنے کے راستے ہموار کئے اور ایوب خان کے دور سے شروع  ہونے والا آئی ایم ایف کے قرضوں کا یہ گھن چکرآج عملاً ہماری معیشت کو مفلوج کر چکا ہے۔ ہرحکمران ملک اور عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات دلانے کے دعوے ضرور کرتا ہے مگر عملاً وہ معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر مزید قرضے لیکر ملک کی معیشت اورعوام کو بدحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع مختلف نئے ٹیکسز لگا کر ‘مروجہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرکے اور بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات ‘ ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کرکے عوام کیلئے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی کیفیت بنائی جاتی ہے۔
عوام نے مسائل کی آماجگاہ بنے اس وطن عزیز میں اسی تناظر میں عمران خان کے انقلاب‘ تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں میں اپنے مستقبل کیلئے امید کی کرن محسوس کی جبکہ عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر یہ بلندبانگ دعوے کرتے رہے کہ وہ نہ صرف قومی خزانہ سے لوٹی گئی رقوم حکمرانوں سے نکلوائیں گے بلکہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی نجات دلا کر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی بنیاد رکھیں گے اور اسے ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالیں گے مگر یہ تاریخ کا جبر ہے کہ آئی ایم ایف کو ملک اور عوام پر  کاٹھی ڈالنے کا سب سے زیادہ اور نادر موقع پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہی حاصل ہوا جبکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط من وعن قبول کرکے اور پھر انہیں عملی جامہ پہنا کر پی ٹی آئی حکومت نے عوام کا عملاً کچومر نکال دیا۔ یہی صورتحال حکومت کے خلاف عوام کے سخت اضطراب پر منتج ہوئی اوراپوزیشن جماعتوں نے باہم متحد ہوکر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی۔ اس تحریک کے تناظر میں اپوزیشن لیڈران بھی عوام کو پی ٹی آئی حکومت کی مسلط کردہ مہنگائی سے خلاصی دلانے کا لالی پاپ ہی دیتے رہے اور جب وہ مخلوط حکومت کی صورت میں اقتدار میں آ ئے تو آئی ایم ایف کی ناروا شرائط قبول کرنے کے معاملے میں پی ٹی آئی حکومت سے بھی زیادہ بے بس نظر آئے اور اس حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ مہنگائی کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوا ملک کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس حکومت کے لاگو کردہ نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کا زیادہ بوجھ سفید پوش تنخواہ دار طبقات پر ہی پڑا جو جان کنی کی کیفیت تک آگئے۔ فی الحقیقت تو مہنگائی کے یہ سارے سونامی آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرامدکے نتیجہ میں ہی اٹھے‘ تاہم ملک میں نازل ہونے والی سیلاب کی آفت نے موجودہ حکومت کو مہنگائی بڑھنے کا جواز نکالنے کا موقع فراہم کیا۔ بے شک کورونا کی طرح سیلاب نے بھی بالخصوص پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے مگر بیرونی دنیا نے اس افتاد سے عہدہ براء ہونے کیلئے پاکستان کی مالی معاونت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر بھی مہنگائی کا عفریت مسلسل عوام کو ڈسے چلا جا رہا ہے جس کا ثبوت سٹیٹ بنک کی حالیہ مانیٹری پالیسی اور وفاقی ادارہ شماریات کی گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ ہے۔
اس صورتحال میں اگر حکمرانوں نے عوام کو غربت‘ مہنگائی بیروزگاری کے گھمبیر مسائل سے خلاصی دلانے کیلئے کوئی چارہ نہ کیا تو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق عوام موجودہ حکومت کو بھی پی ٹی آئی حکومت والے انجام سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیںگے۔ آج بلاشبہ مہنگائی ہی عوام کا اصل اور بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے حکومت کو عملیت پسندی کے ساتھ ٹھوس اور دور رس پالیسیاں مرتب کرنا ہونگی ورنہ مہنگائی کا عفریت سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...