پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "ہم نے ساری اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اس نظام کا مزید حصہ نہیں رہیں گے، وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی کمیٹی سے بات کررہا ہوں، توڑ پھوڑ کے بجائے بہتر ہے اس نظام سے باہر نکلیں، فیصلہ کریں گے کس دن ہم ساری اسمبلیوں سے باہر نکلیں۔" یاد رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان پہلے ہی مستعفی ہو چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو اب تک قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ عوامی جذبات کی حد تک تو کہا جا سکتا ہے کی پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا ہے لیکن اسمبلی سے نکل کر ملک و قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آپ نے لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں متحرک تو ضرور رکھا لیکن کروڑوں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کر سکے، کیا ضمنی انتخابات کے نام پر اس نظام کو مذاق نہیں بنایا گیا، کیا لوگ ووٹ اس لیے دیتے رہے کہ آپ اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہوتے رہیں، جب ایک نظام حکومت موجود ہے اور ملک نے اس کے تحت کی چلنا ہے تو پھر اسمبلیوں سے باہر رہ کر کیا حاصل ہو سکتا تھا بہرحال یہ معاملہ ضرور دیکھنے کا ہے۔ کیا ووٹرز کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان کے ووٹ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں رہ کر آپ قانون سازی کرتے ہیں، اختلاف رائے کرتے ہیں، لوگوں کے مسائل کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، ترقیاتی منصوبوں کے لیے کام اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست بھی کرتے ہیں لیکن اسمبلی سے باہر رہ کر آپ صرف شور مچا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر تو بات نظام کی ہے جس نظام حکومت میں آپ رہتے ہیں اس کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے سیاسی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت نظام حکومت ہے یہاں آپکو اسمبلی میں رہنا ہی پڑے گا ورنہ آپ کی آواز کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ایک طرف صدارتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات ہوں گے اور وہ تمام صوبوں میں کلین سویپ کرتے ہوئے دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائیں گے اور سب کچھ تبدیل کر کے ملک میں نیا نظام حکومت تشکیل دیں اور ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا بوریا بستر گول ہو جائے گا صدارتی نظام ہو گا ایک مقبول لیڈر اس نظام میں سربراہ مملکت ہو گا اور ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ یہ تمام باتیں کہنے، لکھنے اور سننے کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن ان کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں ہے کیونکہ موجودہ دور میں دو تہائی اکثریت ناممکن ہے اس کے بعد آئینی رکاوٹیں بھی آئیں گی سو نظام بدلنے سے بہتر ہے کہ اس ترمیم کو بدلا جائے جس کی وجہ سے وفاق کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبے لیتے سب کچھ وفاق سے ہیں لیکن وفاق کو دینے کے لیے صوبوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ویسے بھی عمران خان کے لیے فوری طور پر اقتدار میں آنا مشکل ہو گا۔ وہ جو سمجھ اور سوچ رہے ہیں حالات یقیناً اس انداز سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نظام حکومت بدل جائے گا اور صرف وہ واحد آپشن ہوں گے تو ایسا بھی مشکل ہے۔ خواب دیکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن خوابوں کو حقیقت میں بدلنا اصل امتحان ہوتا ہے۔ اس وقت وہ حالات نظر نہیں آتے کہ جو پارلیمنٹ سے باہر ایک جماعت کو ایوانِ اقتدار تک لے جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حقیقی آزادی والے بیانیے کو بدل لینا ہی بہتر ہے کیونکہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، یہاں سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں لوگ ملک کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک ہیں ہم کیسے کسی کے غلام ہو سکتے ہیں ویسے آپ یاد رکھیں کہ ہم آزاد ہیں اور جلد یا بدیر عمران خان نئے پاکستان، سونامی، دو نہیں ایک پاکستان، یا اچھے پاکستان کے نعروں کی طرح حقیقی آزادی والے نعرے سے بھی منہ پھیر لیں گے۔ اس حوالے سے وہ کسی بھی وقت یو ٹرن لے سکتے ہیں۔
کیا اسمبلیوں سے نکلنا مسئلے کا حل ہے، کیا اس کارڈ کو کھیل کر قبل از وقت انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں، کیا موجودہ حکومت اور ادارے آئندہ برس مارچ اپریل تک انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں، کیا پی ٹی آئی بہتر سیاسی حکمت عملی کے ساتھ واپس آئی ہے، بہت سے سوالات ہیں، سب اپنے اپنے کارڈز کھیل رہے ہیں، اگر غیر نمائندہ حکومت آتی ہے اور ملک کے بغیر انتخابات کے آگے بڑھتا رہتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا، کیا کسی دوسرے کو کھیل سے باہر کرنے کے لیے ملک میں کروڑوں لوگوں کا مستقبل غیر محفوظ بنانے کا فیصلہ درست ثابت ہو سکتا ہے، کیا نظام کو لپیٹنے کے لیے اداروں کو مجبور کرنے کا عمل کمزور ملکی معیشت کے لیے زہر ثابت نہیں ہو گا۔۔۔۔
جیسے پاکستان تحریکِ انصاف آگے بڑھ رہی ہے اس حکمت عملی سے انہیں سیاسی فائدہ نہیں ہو گا حکومت کے پاس اس کا جواب اور توڑ موجود ہے اور اس کا جواب پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ بہرحال حکومت سے نکلنے کے بعد سے آج تک انہیں مختلف حوالوں سے ناکامی کا سامنا رہا ہے اور انتخابات کے معاملے میں بھی پی ٹی آئی کے موقف کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ ضمنی انتخابات کا معاملہ اپنی جگہ موجود ہے لیکن خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔