لاہور کے ایک معتبر، تاریخ سازتعلیمی ادارے میں مختلف بی ایس پروگرامز کے طلباء سے مخاطب ہونے کے لئے دعوت نامہ ملا۔ درسگاہ کا خوبصورت ہال نصابی تعلیم کی اختتامی سطح پر پہنچے ہوئے طلباء سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ، اور میری گفتگو پر اُن کا انہماک دیدنی تھا۔ میں نے اپنی آگہی کے لئے طلباء سے سوال کیا کہ آپ میں سے کتنے نوجوان ایسے ہیںجنہوں نے بعد ازتکمیلِ تعلیم اپنی منزل کا تعین کر رکھاہے۔ اس کے جواب میں، ہال میں موجود طلباء کے جمِ غفیر میںسے صرف تین یا چار طلباء کے ہاتھ ہی بلند ہو سکے۔یہ منظر نہ صرف میرے لیے تشویش کا باعث تھا بلکہ ہمارے نصابِ تعلیم ، طریقۂ تدریس اور استاد کے طلباء سے غیر وابستہ تعلق کا غماز بھی تھا۔ سولہ سال پر محیط بلاتخصیصِ منزل کٹھن تعلیمی سفر ہمارے پورے معاشرے کے منہ پر زناٹے دار طمانچے سے کم نہ تھا۔ نہ تو نوجوان بہرے گونگے تھے اور نہ ہی ذہنی طور پر مفلوج۔اس لیے اُن کی یہ حالت انتہائی قابلِ رحم تھی۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں ، مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے متعلق عام بندے کی جانکاری پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بیسیوںمعاملات سے باخبر ہونے کے باوجود ،تعلیم یافتہ نوجوان اپنی منزل کے تعین سے بے فکر اور ناواقف ہے۔اس کی حالت ہوا کے دوش پرلہراتے ہوئے درخت کے اُس پتے کی سی ہے جس کو ہوا کا جھونکا چاہے تو کسی عمارت کی چھت پر رکھ دے،چاہے تو سڑک پر یا کسی نالی میں بہتے گندے پانی پرگِرا دے۔ آج داستان گوئی پر مہارت رکھنے والے بہت سے بے عمل اصلاحی خطیبوں نے کامیابی کے حصول کے خیالی اور تصوراتی نسخے مہنگے داموں، ’’گوٹا کناری لگا کر‘‘ فروخت کیے ہیں ، جن کی بدولت ’’بھاری بھرکم اسناد ‘‘کے حامل افراد بھی سیراب کا شکار ہو کر منزل کی سمت کا تعین کرنے میں ناکام ٹھہرے ہیں۔
خالقِ کائنات نے شاید ہی کوئی انسان ایسا تخلیق کیا ہو جو سرتاپا بے وَصف ہو۔ اُس نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت ، وصف یا جوہرِقابل ضرور رکھا ہے جس میں اس کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ مگر اُس وصف کی بر وقت شناخت لازم ہے۔تاہم ہمار ے تعلیمی اور معاشرتی نظام میں ان اوصاف کی شناخت کی مطلوبہ سہولت سرے سے میسر نہیں ہے۔اسی لیے جب والدین اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کیلیے بچوں کے تدریسی مضامین کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دے پاتے کہ بچے اُن مضامین کی بجائے دیگر مضامین میں دلچسپی یا قابلیت رکھتے ہیں۔ اس طرح غیر فطری نصابی دورانیہ میں بچہ سَند تو حاصل کرلیتا ہے، لیکن مزاجی یا عقلی عدم موافقت کے باعث حصولِ منزل ایک خواب رہتا ہے۔ کتنے نوجوان والدین کی خواہش پر ڈاکٹر اور انجینئر تو بن گئے ،مگر انہوںنے اپنی تعلیم کو اپنے پیشے کی زینت بنانے کی بجائے کئی اوـــر’’لہلہاتی چراگاہوں ‘‘کا رُخ کیا۔ لہٰذا کامیاب زندگی کی طرف پہلا قدم بچے یا جوان کے اندر اُس منفرد جوہرِ قابل کی شناخت ہے جو اُس کے دیگر اوصاف پر حاوی ہو۔ جوہرِ خاص کی شناخت کے عمل میں والدین ، اساتذہ اور ہم جولی بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ تجربہ کار ،باعمل کیئرئیر کونسلر یا ماہرِ نفسیات کی خدمات بھی بہت بامقصد ثابت ہو سکتی ہیں۔ کسی چیز کا خصوصی وَصف اور اُس کی طرف دلچسپی دو مختلف پہلو ہیں ۔ممکن ہے ایک نوجوان میں کرکٹر بننے کا بَلا کا شوق ہومگر اس کے ساتھ ہی وہ جسمانی طور پر بہت کمزور ہو ۔دوسری طرف اُس کا ذہن ریاضی کے مضمون میں کئی اُلجھی ہوئی گھتیاں سلجھانے کی اہلیت کا حامل ہو، تو ایسے میں شوق کو ریاضی کے جوہرِ قابل پر قربان کر دینا زیادہ قرینِ عقل دکھائی دیتا ہے۔
جوہرِ قابل کی شناخت کے بعد منزل کے تعین کا مرحلہ آتا ہے ،گویا جوہرِ قابل اور تعین منزل میں ربط اور موافقت کا ہونا نا گزیر ہے۔ پھر منزل کی سطح اتنی بلند رکھی جائے کہ اُس تک پہنچنے کے لئے جوہرِ قابل یا صلاحیت کو نکھارنے کا بھرپور موقع دستیاب آئے۔ مثال کے طور پر اگرضلع کی سطح پر دوڑ جیتنے والا باوَصف اتھلیٹ ڈویژن کی سطح پر دوڑ جیتنے کو اپنی منزل ٹھہرا لیتا ہے تو ہو سکتا ہے وہ اِس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر وہی اتھلیٹ بین الاقوامی سطح پر دوڑ جیتنے کو اپنی منزلِ ِمرادمتعین کر لیتا ہے تو وہ اسکے حصول کے لیے شب و روز خصوصی محنت اور دیگر ماحول کا اہتمام ضرور کرے گا۔ممکن ہے وہ بین الاقوامی سطح پر کسی نہ کسی وجہ سے دوڑ نہ جیت سکے ،لیکن ملکی یا کم از کم صوبائی سطح پر اُس کے جیتنے کے امکانات بہت روشن ہوں گے۔
خصوصی وَصف کی بنیاد پر منزل کا تعین کر لینے کے بعد تیسرا مرحلہ آغازِ سفر کا ہے۔ یعنی اب منزلِ مراد کی جانب عملی قدم اُٹھا نا ناگزیرہے۔ پھر کتنے احباب دو چار گام چل کر خرگوش کی سی نیند کا شکار ہو کر پڑے رہتے ہیں،اور منزل کو وہی جا لیتے ہیں جو قدموں کو رکنے نہیں دیتے ۔گویا متعین منزل کی جانب قدم اُٹھا لینے کے بعدمستقل مزاجی لازم ہے ، وگرنہ وصفِ باکمال بھی کسی کا م کا نہیں۔ شاہراہِ منزل کے سنگ ہائے میل کو عبور کرنے کے لیے جس زادِ سفر کی ضرورت ہے وہ عاجزی ہے ۔ عاجزی خدائی وَصف تکبر کی ضد ہے جو تشکر کے اعلیٰ وصف سے روشناس کراتی ہے ، والدین ،اساتذہ اور بڑوں کا ادب سکھاتی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو ’’میںہی ٹھیک ہوں‘‘ کے مرض سے نجات دلا کر اپنی غلطیوں کے اعتراف پر آمادہ کرتی ہے۔ ہمارے آج کے طلباء اور تعلیم یافتہ نوجوان اس زادِ سفر کے ساتھ اپنے جوہرِ قابل کی پہچان کے بل بوتے پر منزل کا تعین کر کے مستقل مزاجی کے ساتھ چلتے چلتے منزلِ مراد تک نہ پہنچیں، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔